تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
سعودی ولی عہد نے ایرانی صدر کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں ان کے کردار کو سراہا۔ محمد بن سلمان نے کہا کہ میں آپ کی صورت حال سے بخوبی آگاہ ہوں۔ میں ایران میں اپنے بھائی کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔ اس ٹیلیفونی گفتگو میں سعودی ولی عہد نے مزید کہا کہ اس وقت ایران-سعودی تعلقات تاریخی موڑ پر ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ تعلقات تمام شعبوں میں اعلیٰ سطح تک پہنچیں گے۔ ریاض میں آپ کے معاون کی موجودگی ایک بہترین موقع شمار ہوگی۔ محمد بن سلمان نے ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو ایک بار پھر دورہ سعودی عرب کی دعوت دی، جس کے جواب میں ایرانی صدر نے بھی انہیں دورہ تہران کی دعوت دی۔ جس پر سعودی ولی عہد نے کہا کہ ایران کا دورہ میرے لئے باعث افتخار ہوگا اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی اس دورے کا مناسب موقع آجائے گا۔ ایران سعودی تعلقات ایک ایسا موضوع ہے، جس پر دوست و دشمن سب کی نظریں ہیں۔
اگرچہ خلیج فارس میں امریکہ کا روایتی انداز ایران اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور سلامتی کے بہانے اس علاقے میں اپنی موجودگی قائم کرنا ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں ہونے والی پیش رفت کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ کوئی زیادہ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف فیاض بن حامد الرویلی نے اتوار کے روز تہران کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران انہوں نے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل علی باقری سے ملاقات اور گفتگو کی۔ میجر جنرل باقری نے الرولی سے ملاقات میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سی مشترکات اور صلاحیتوں کی وجہ سے دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان تعاون کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
باقری نے دفاعی شعبوں میں تعاون کی سطح کو بہتر بنانے اور ٹرینگ اور مشقوں کے شعبوں میں تجربات کے تبادلے پر زور دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ہم آئندہ سال کی اپنی بحری مشقوں میں سعودی بحریہ کے مختلف یونٹوں کی موجودگی یا مبصر کے طور پر ان کی شرکت کو خوش آمد کہیں گے۔ میجر جنرل باقری نے سعودی عرب میں اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ اجلاس اسلامی ممالک کے اتحاد میں ایک قابل تعریف قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران اور سعودیہ کے فوجی سربراہوں کے درمیان دوطرفہ دفاعی اور عسکری تعاون، باہمی تعلقات میں پیشرفت کا جائزہ اور اسی طرح فلسطین کا موجودہ مسئلہ خصوصی طور پر زیر بحث رہا۔ فیاض بن حامد الرویلی نے ایران کی مسلح افواج کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی سطح کو بہتر بنانے کا جائزہ لیا اور کہا کہ بیجنگ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعاون کو بڑھانے کے لیے ایک اچھی بنیاد ہے۔ ہم اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لئے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس سعودی عہدیدار نے اسلامی ممالک اور خطے کے اتحاد میں دونوں ممالک کے کردار اور اثر و رسوخ کی اہمیت نیز دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور دفاعی تعلقات کے تسلسل پر بھی زور دیا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سعودی عرب کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کا حالیہ دورہ ایسے عالم میں ہوا ہے، جب خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ لہٰذا اس دورے کا کئی زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ سعودی مسلح افواج کے سربراہ کا دورہ تہران مزاحمتی محاذ میں ایران کی پوزیشن اور خطے میں فوجی نقطہ نظر سے اٹھائے جانے والے بعض مسائل کے پیش نظر نہایت اہم ہے۔ سعودی عرب کو یمن کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں۔ سعودی عرب دنیا میں تیل فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس لیے وہ خطے میں امن بقائے باہمی کی پالیسی کو دوبارہ شروع کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ ایران کے ساتھ معاہدے کے بعد مختلف شعبوں میں تعلقات میں توسیع کی کوشش کو آگئے بڑھانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا رہنما تصور کرتا ہے، اس بات سے خطرہ محسوس کرتا ہے کہ گذشتہ سال کی پیش رفت میں اس کا کردار نہ ہونے کے مساوی ہے۔ خطے کی حالیہ پیش رفتوں میں سعودی عرب کے کمزور کردار کو اس دورہ کی ایک وجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب خلیج فارس کے ممالک میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور مزاحمتی محاذ کے کردار کی وجہ سے اس کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ دوسری جانب قطر اپنے چھوٹے سائز کے باوجود حماس کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے خطے کی پیشرفت میں اہم کھلاڑی بن کر سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب خطے میں ہونے والی پیش رفتوں میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا، بالخصوص ایسی پیشرفت جس میں مزاحمت کا بلاک مرکزی کردار کا حامل ہو اور جس کا ہدف خطے میں صیہونی حکومت اور مغرب کی مہم جوئی کو ختم کرنا ہو۔ مزاحمتی گروہ صیہونی حکومت کے خلاف کارروائیوں کے ذریعے خطے کو مستحکم اور بڑی طاقتوں کی موجودگی سے پاک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ خطے کے ممالک اجتماعی تعاون کے ذریعے اپنی سلامتی کی ذمہ داری خود اٹھا سکیں۔
سعودی رائے عامہ اور عوام نہیں چاہتی کہ ریاض موجودہ فرنٹ لائن میں تاریخ کے غلط رخ پر رہے، کیونکہ سعودی عرب خطے میں مغرب کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے اور سعودی عوام، رائے عامہ میں مغرب کے اتحادی کے طور پر اپنے ملک کی تصویر بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کی تہران میں موجودگی کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں وسعت کے ساتھ ساتھ ریاض اور مزاحمت کے بلاک کے درمیان فاصلے کم ہونے کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات میں فروغ کو خطے کے ممالک کے ساتھ نئی صف بندی تبھی کہا جا سکتا ہے، جسے رائے عامہ کے نقطہ نظر سے مثبت سمجھا جا رہا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں سعودی عرب امریکہ کی پالیسیوں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ رہا ہے اور شام، یمن اور لبنان سمیت خطے کے اہم معاملات میں مزاحمت کے بلاک کے خلاف صف آراء رہا ہے۔ اس لیے اگر سعودی حکمران واقعی اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعمیری تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
مزاحمتی محاذ کے ساتھ اتحاد اور سلامتی کے میدان میں سعودی عرب کا ایران سے ہم آہنگ ہونا امریکہ کے مفادات سے متصادم ہے، اس لیے اگر سعودی چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ معاہدوں اور تعاون کا حقیقی نتیجہ سامنے آئے تو سعودی عرب کو اپنی امریکہ نواز پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ غزہ کی جنگ، بحیرہ احمر میں امریکی فوجی نقل و حرکت اور یمن کی طرف سے اسرائیل نواز بحری جہازوں پر حملے ریاض کے حکمرانوں کے لیے ایک دھچکا ہے، کیونکہ اس سے خطے میں عدم تحفظ اور بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ ان مسائل کی ایک وجہ سعودیوں کی یمن دشمن پالیسیاں بھی تھیں۔ اس لیے سعودیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور صحیح راستے کا انتخاب کریں۔ ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعاون سے یمن کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے زمین فراہم کی جا سکتی ہے، جس سے سعودی عرب کی طرف سے یمن کی سرحدوں کے بارے میں خدشات ختم ہو جائیں گے۔
یمن کے مضبوط ہونے کا مطلب مزاحمتی محاذ کی مضبوطی ہوگا اور تہران میں ہونے والی مشاورت سے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایران نے ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کو امن کا پیغام دیا ہے، اس لیے سعودی فوجی اہلکار کا دورہ ایران فوجی اقدامات کے تناظر میں ایک مثبت اور موثر عمل ثابت ہوسکتا ہے اور خطے میں سیاسی تعاون کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ بحیرہ احمر میں انصاراللہ کو گذشتہ سال امریکی اور صیہونی جہازوں پر میزائل حملوں کے تناظر میں برتری حاصل رہی ہے، اس لیے سعودی عرب یمن میں جنگ ختم کرکے اور صنعاء سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے تیل کی برآمد کے راستوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دس سالہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ یمن میں جنگ کا جاری رہنا نہ صرف سعودی مفادات کے حق میں نہیں بلکہ اس سے سعودی اقتصادی مفادات کو ناقابل تلافی دھچکا لگا ہے، جیسا کہ گذشتہ برسوں میں آرامکو کی تنصیبات پر انصاراللہ کے حملوں میں ہوا تھا، جس کا نقصان سعودی عرب کے معاشی مفادات کو پہنچا تھا۔
بہرحال سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف فیاض بن حامد الرویلی کا دورہ ایران، بیجنگ معاہدے کا حصہ ہے۔ جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان وقتاً فوقتاً سیاسی اور عسکری سطح پر ملاقاتیں جاری رہیں۔ اس سفر میں جو چیز اہم ہے اور جو مختلف ردعمل کا باعث بنی، وہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں تہران اور ریاض کے درمیان فوجی تعاون مزید مضبوط ہوا ہے اور یہ مسئلہ دونوں ممالک کے لیے مختصر اور درمیانی مدت کے فائدے کا باعث بن سکتا ہے۔ مختصر مدت میں، سعودی عرب یمنیوں کے رویئے کو کنٹرول کرنے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے ایران کی صلاحیت کو استعمال کرسکتا ہے، جو بحیرہ احمر میں انصاراللہ کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری جانب اگر ایران سعودی عرب کو بحری اتحاد اور دو طرفہ اور کثیر جہتی مشترکہ فوجی مشقوں میں شامل ہونے پر راضی کرسکتا ہے تو یہ موجودہ حالات میں تہران کے لیے اہم ہوگا۔ معیشت اور سمندر کی آبی گزرگاہوں کی فراہمی کا مسئلہ سعودی عرب کی ترجیح ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب، 2030ء کے وژن کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ سالوں میں سیاسی اور اقتصادی استحکام پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، جس کے لئے باہمی ضروری تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ تہران کے ساتھ اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد سے، ہم نے دیکھا ہے کہ ایران سعودی تعلقات ایک روڈ میپ کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، تاہم اسلامی جمہوریہ ایران کو سعودی عرب سے جو توقعات تھیں، وہ ابھی تک پوری نہیں ہوئیں، لیکن اس کے باوجود تعاون کی باہمی کوششیں جاری ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سعودی عرب بحیرہ احمر کی حفاظت کو کنٹرول اور یقینی بنانا چاہتا ہے اور اس آبی گزرگاہ کا سعودی عرب کے اقتصادی نقطہ نظر میں اہم کردار ہے، یہ مسئلہ سعودیوں کے لیے اہم ہے اور انہیں انصاراللہ کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ تہران اور ریاض کے معاہدے سے انصاراللہ تنظیم اپنی بحری کارروائیوں کا کچھ حصہ بند کر دے گی یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔