تحریر: مرتضیٰ مکی یل گروسی کا دورہ ایران
ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات اور گفتگو کے لیے تہران کا دورہ کیا ہے۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے ایران کا صدر بننے کے بعد گروسی کا یہ پہلا دورہ تہران ہے۔ چونکہ یہ دورہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے سہ ماہی اجلاس سے چند روز قبل ہوا ہے، اس لئے اس کی اہمیت کافی زیادہ ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے تہران کے دورے اور ویانا میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر یا نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ایرانی حکام کے درمیان جو ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ جامع ایٹمی معاہدے (JCPOA) سے امریکہ کی دستبرداری کے بعد ایجنسی اور ایران کے درمیان اختلافات کے بارے میں مرکوز رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے فریم ورک نیز صیہونیوں اور بنیاد پرست ریپبلکنز کے زیر اثر ء2018 میں جامع ایٹمی معاہدے JCPOA سے دستبردار ہوگیا تھا۔ ٹرمپ اور ریڈیکل ریپبلکنز کے حلقے کا خیال تھا کہ اس پالیسی سے وہ ایران کو کمزور کرسکتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران پر اپنے مطالبات مسلط کرکے اسے ڈکٹیشن قبول کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو کی پندرہ رپورٹس کے مطابق جے سی پی او اے کے نفاذ کے دوران اور ٹرمپ کے اس معاہدے سے دستبرداری کے ایک سال بعد بھی ایران نے اپنی تمام ذمہ داریوں کوپورا کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے JCPOA کی دیگر فریقین کی عدم تعمیل کے جواب میں JCPOA میں اپنے وعدوں کو پانچ مراحل میں معطل کر دیا۔ صیہونی حکومت، یورپ اور امریکہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو عرصے سے ایرانوفوبیا پالیسی کے دائرے میں متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
رافیل گروسی کے زیر انتظام ایجنسی نے بہت سے معاملات میں ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے لیے اپنے تکنیکی کردار سے تجاوز کیا ہے اور ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کی رپورٹوں میں صہیونی لابی کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے ایران مخالف رپورٹیں جاری کیں۔ دریں اثناء، اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ معاہدوں کے دائرے میں رہتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تکنیکی تعاون کو جاری رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ رافیل گروسی نے حساس علاقائی صورتحال میں ایران کا سفر کیا ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے کہا ہے کہ وہ این پی ٹی کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے زیادہ افزودگی کے مشتبہ کیسوں سے متعلق الزامات کے سلسلے میں ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے قومی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے آئی اے ای اے کے سربراہ سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صاف الفاظ میں کہا کہ ایران کو دباؤ ڈال کر کسی کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تعاون این پی ٹی کے تحت جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں کہ جب دنیا کا سامراجی نظام کھل کر صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہا ہے اور عالمی اداروں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ تہران میں ان کی اور رافائل گروسی کی ملاقات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے صاف الفاظ میں کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ہر طرح کی قرارداد پر ایران کا ردعمل فوری ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ایران کو بارہا آزما چکے ہیں اور ناکام ہوئے ہیں، لیکن انہیں جان لینا چاہیئے کہ ایران ان حرکتوں سے متاثر ہونے والا نہیں ہے اور اپنے قومی مفادات کے تحت اپنا ایٹمی پروگرام آگے بڑھائے گا۔ محمد اسلامی نے واضح کیا کہ ایران مخالف کوئی بھی قرارداد پر تہران کو جوابی اقدام کا مکمل حق حاصل ہوگا۔ مقابلہ آرائی، قرارداد اور ایٹمی پروگرام میں خلل ڈالنے کی ہر طرح کی کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
اگر ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ایران اور ایجنسی کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو ایران کے ماضی اور موجودہ معاہدوں کے دائرہ کار میں حل کرنے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور اگر وہ صیہونیوں کے ساتھ تعاون کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو کسی خاطرخواہ نتیجے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جب بھی ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا تعاون اس بین الاقوامی ادارے کی تکنیکی نگرانی کے دائرہ کار میں ہوتا ہے تو ایٹمی معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے 5+1 گروپ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے قانونی اور بین الاقوامی امور میں نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی جنہوں نے دو ہفتے قبل ویانا میں گروسی سے ملاقات کی تھی، اس دورے کے بارے میں کہا ہے کہ یہ سفر ایران اور ایجنسی کے درمیان 4 مارچ 2023ء کے مشترکہ معاہدہ کے دائرے میں جاری بات چیت کا تسلسل ہے۔ البتہ یہ تب ہی ممکن ہے، جب ایران مخالف کچھ ممالک ڈائریکٹر جنرل اور اس عالمی ادارے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور ایران اور ایجنسی کے درمیان تعلقات کو بے تکے الزامات سے خراب نہ کریں۔