تحریر: سید رضی عمادی
مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس ریاض میں منعقد ہوا۔ اسلامی ممالک کے اس اجلاس کے اختتامی بیان میں صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت میں متفقہ موقف اپنایا گیا۔ صیہونی حکومت غزہ میں نسل کشی اور لبنان کے خلاف جرائم کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے اور غزہ و لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کے بے مثال جرائم کے تسلسل کی ایک وجہ ان جرائم کے خلاف اسلامی ممالک کی بے حسی اور بے عملی بھی ہے۔ گذشتہ چودہ مہینوں میں اسلامی اور عرب ممالک نے غزہ کے عوام کی حمایت کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا اور گذشتہ تینتالیس دنوں میں بین الاقوامی برادری نے لبنان کے بارے میں جس بے عملی کا مظاہرہ کیا، اس نے صیہونی حکومت کو کھل کر اپنے جرائم کو جاری رکھنے کا موقع دیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نااہلی نے صیہونی حکومت کو غزہ اور لبنان کے خلاف اپنے جرائم کو جاری رکھنے اور ان جرائم کی سزا نہ پانے کی وجہ سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کا موقع فراہم کیا۔
اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا یہ غیر معمولی اجلاس، جو گذشتہ روز سعودی عرب میں منعقد ہوا، اسے غزہ اور لبنان کی حمایت کے تناظر میں ایک مثبت سفارتی اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس کے انعقاد کی تجویز پیش کی، جو سعودی عرب کی تجویز سے اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں تبدیل ہوگئی۔ اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد غزہ کی پٹی اور لبنان میں صیہونی حکومت کی جارحیت کو روکنے کے لیے متفقہ موقف اختیار کرنے کے بارے میں بات چیت کرنا تھا۔ اس سلسلے میں اس اجلاس میں موجود ممالک نے فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کا ادراک کرنے اور اپنے ملک کی سرزمین پر واپسی کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین دیگر تمام اقوام کے منصفانہ مسائل کی طرح ہی ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے ججدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ فلسطینی عوام صیہونی قبضے سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
اجلاس کے اختتامی بیان میں مشرقی بیت المقدس کو یہودیانے اور اس پر تسلط قائم کرنے کے صیہونی حکومت کے اقدامات کی مخالفت پر زور دیتے ہوئے بیت المقدس کو اسلامی اور عرب اقوام کی سرخ لکیر قرار دیا گیا۔ ایک اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس اجلاس کے شرکاء نے فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ایجنسی (UNRWA) کے خلاف صیہونی حکومت کے معاندانہ اقدامات کی بھی سخت مذمت کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطینی علاقوں میں ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کی سرگرمیوں پر پابندی اور انسانی تنظیموں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کی مذمت کرتے ہیں۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی اور عرب ممالک غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے تمام پہلوؤں پر توجہ دے رہے ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں منعقدہ اس اجلاس میں شریک ممالک نے صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں عالمی برادری کی بے عملی کی مذمت کی اور اسے ان جرائم کے جاری رہنے کی ایک وجہ بھی قرار دیا۔ اس حوالے سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا ہے کہ غزہ، مغربی کنارے اور لبنان کے خلاف اسرائیل کی جارحیت بین الاقوامی خاموشی کے سائے میں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ ہم غزہ پٹی میں شہریوں کے قتل عام کی دوٹوک الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اگر صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں اسلامی اور عرب ممالک کا سیاسی موقف زبانی کلامی موقف سے عملی رویئے میں بدل جاتا ہے اور عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہم امید کرسکتے ہیں کہ صیہونی حکومت اپنے جرائم کو ختم کرنے پر مجبور ہو جائے گی، کیونکہ سیاسی موقف کو عملی شکل دینے کا اہم نتیجہ مغربی ایشیاء میں صیہونیت کی سیاسی تنہائی ہے، جو اس کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے دوسرے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے واپسی پر ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف نے نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس ایران کی تجویز پر منعقد ہوا اور خوش قسمتی سے اسلامی اور عرب ممالک کے سربراہوں نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ محمد رضا عارف نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سربراہی اجلاس میں بیشتر مسلم ممالک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی، کہا کہ موجودہ حالات میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تجویز کا خیر مقدم اور انعقاد، ایران کے لیے بہت بڑی کامیابی ہے اور سعودی عرب نے ایک اچھا میزبان ہونے کا حق ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ حال حاضر میں جبکہ غاصب صیہونی حکومت اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے، اس سربراہی اجلاس کے انعقاد کی اشد ضرورت تھی اور اس نے دنیا کو اتحاد کا پیغام دیا اور ایک اچھی اور تفصیلی قرارداد منظور ہوئی، جس میں صیہونی جارحیت کے اقدامات کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ محمد رضا عارف نے کہا کہ ایرانی وزارت خارجہ نے اس اجلاس میں مناسب تجاویز پیش کیں، جنہیں عمومی طور پر منظور کر لیا گیا۔ ایران کے سینیئر نائب صدر نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد کے ساتھ ہماری ایک اچھی ملاقات ہوئی اور ہم نے دوستانہ بات چیت کی، جس میں تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ محمد رضا عارف نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا فروغ خطے کے اسلامی ممالک میں یکجہتی اور اتحاد کا باعث بنے گا۔