اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک اہم حکم نامے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، جس میں سڑک کی توسیع کے لئے مکانات کو مسمار کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے آخری فیصلے میں بلڈوزر کے ذریعے انصاف کے عمل پر سخت الفاظ استعمال کئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ مکانات گرا کر یا خوف پیدا کر کے لوگوں کی آواز کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں اترپردیش کے مہاراج گنج میں منوج ٹبڈیوال نامی شخص کا گھر بغیر اطلاع کے منہدم کر دیا گیا۔ 6 نومبر کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے یوپی حکومت سے درخواست گزار کو 25 لاکھ روپے کا عبوری معاوضہ دینے کو کہا۔ اس کے علاوہ ریاست کے چیف سکریٹری سے بھی اس پورے معاملے کی محکمہ جاتی تحقیقات اور کارروائی کے لئے کہا گیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ سڑک کی توسیع سے پہلے سروے کرایا جائے جس میں یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس کی موجودہ چوڑائی کتنی ہے اور کتنی توسیع کی ضرورت ہے۔ جن کے گھر توسیع کے دائرے میں آرہے ہیں ان کو نوٹس دیا جائے۔ ان کا موقف سننے کے بعد قواعد کے مطابق کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے اس حکم کی کاپی تمام ریاستوں کو بھیجنے کی بھی ہدایت دی اور کہا کہ تمام ریاستوں کو سڑک کی توسیع سے پہلے مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اب سامنے آنے والے تفصیلی فیصلے میں عدالت نے بلڈوزر انصاف کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلڈوزر انصاف کو ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا، اگر اس کی اجازت دی گئی تو دفعہ 300 اے کے تحت دیا گیا آئینی حق بے معنی ہو جائے گا۔
سماعت کے دوران عدالت نے پایا کہ درخواست گزار کے گھر کا بہت کم حصہ سڑک کی حدود میں ہے، لیکن ان کے ساتھ ذاتی رنجش کی وجہ سے انتظامیہ کے کچھ اہلکاروں نے پورا گھر گرا دیا۔ اب عدالت نے کہا ہے کہ کسی بھی مہذب انصاف کے نظام میں بلڈوزر کے ذریعے انصاف کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ بہت خطرناک ہو گا کہ سرکاری اہلکاروں کو لوگوں کے گھروں کو بلا روک ٹوک گرانے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے مزید لکھا کہ املاک کے انہدام کا خوف دکھا کر عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا، گھر ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے، اسے غیر قانونی طور پر نہیں چھینا جانا چاہیئے۔ سرکاری املاک پر ناجائز قبضے یا تجاوزات کی اجازت نہیں دیتے لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائی کی جائے۔