0
Monday 30 Sep 2024 20:18

قافلہ حسینیؑ کا سفر حسینؑ کے بعد بھی جاری ہے

قافلہ حسینیؑ کا سفر حسینؑ کے بعد بھی جاری ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں بے تحاشہ طاقت کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں لبنان کے شہر کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے، پاکستان کے کئی صحافی جنگ کی رپورٹنگ کے لیے لبنان پہنچے۔ مشہور صحافی حامد میر نے جنگ کے دوران وہاں کئی لوگوں کا انٹرویو کیا، میر صاحب نے کہا بھی اور کالم بھی لکھا کہ یہاں ہر شخص کی ایک امید ہے اور اس کے مقابلے میں اسے اپنے گھر کے تباہ ہو جانے، اپنے  خاندان میں کئی لوگوں کے شہید ہو جانے کی بھی پرواہ نہیں ہے اور وہ امید سید حسن نصراللہ ہیں۔ ہر شخص یہ دعا کر رہا ہے کہ اللہ، سید حسن نصراللہ کی حفاظت فرمائے۔ میر صاحب لکھتے ہیں میں نے ایک ہجرت کرتے لبنانی سے پوچھا  آپ سب لوگ سید حسن نصراللہ پر امید لگائے ہوئے ہیں اگر وہ شہید ہوگئے تو کیا ہوگا؟ تھوڑی دیر وہ لبنانی سوچتا رہا اور پھر کہا دس محرم کے بعد بھی قافلہ حسینیؑ رکا نہیں اس کا سفر جاری رہا۔آج ہر طرف حسینؑ ہے اور یزید کا نام صرف نفرت کے لیے لیا جاتا ہے۔

دشمن شائد اس گھمنڈ میں ہے کہ دنیا بھر کی انٹلی جنس ایجنساں استعمال کرکے وہ دباؤ میں لا سکتا ہے۔ اسلحہ کے زور پر آگے بڑھ کر کچھ وقت کے لیے فرزندان مقاومت کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا، زمین زادے ہمیشہ سرفراز ہوتے ہیں اور قابض و رسہ گیر ایک دن رخت سفر باندھتے ہیں۔ مقاومت ایک شخص کا نام نہیں تھا اور نہ ہے۔ مقاومت پر ایک نسل کی تربیت ہوئی ہے، یہ شکل تبدیل کر سکتی ہے جو ضرور کرے گی اور چودہویں کے چاند کی طرح مقاومت چمک رہی ہوگی۔ عمر مختار نے اٹلی کے آمر جنرل سے کہا تھا ہمیں جلدی نہیں، میں لڑوں گا، میری اگلی نسل لڑے گی اور ان کی اگلی نسل لڑے گی ہم اس وقت تک لڑیں گے جب تک تمہارا آخری آدمی یہاں سے نکل نہیں جاتا۔

‏پچھلے دو دنوں سے ایک آرٹسٹ کی تصویر عرب میڈیا پر بڑی وائرل ہے اس تصویر میں امریکی گھونسے اور اسرائیلی میزائیل کے سامنے ساری عرب دنیا کے بادشاہ سجدہ ریز ہیں اور سید حسن نصراللہ پوری قوت سے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ امام حسینؑ کے پیروکار زمانے کی ہوا کے ساتھ نہیں، اصولوں اور ضوابط کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کی قیمت ادا کرنا جانتے ہیں۔ بقول شاعر:
کربلا سے لیکر آج تک ہمارا یہی جرم ہے!
ہم بیعت نہیں شہادت قبول کرتے ہیں

شہادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہے، یہ تو عہدہ ہے، یہ تو اعزاز ہے، یہ سربلندی کی علامت ہے اور انہیں کے نصیب ہوتی ہے جنہیں اللہ چن لیتا ہے۔ میں اکثر اس پر لکھتا رہتا ہوں کہ موت تو آنی ہے، ہر زندہ نے ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے بستر پر ایڑیاں رگڑ کر مرنا عیب ہے۔

یہ لوگ زندگی میں ایک دوسرے سے اس بات پر مکالمہ کر رہے ہوتے ہیں کہ پہلے کون شہید ہوگا؟ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پہلے اس دنیا سے جائے اور اپنے رب کے سچے وعدوں کو پا لے۔ مکتب حسینیؑ ایسا ہی ہے یہاں کے پیمانے دنیا دار عقل کی سمجھ سے بہت بلند ہیں۔ امام حسینؑ نے شہزادہ قاسمؑ سے پوچھا تھا بیٹا موت کو کیا سمجھتے ہو؟ تو جواب ملا تھا چچا جان شہد سے میٹھی پاتا ہوں۔ خاندان اہلبیتؑ کے تربیت یافتہ علی اکبرؑ بن حسین بن فاطمہ بنت خاتم الانبیاؑ نے امام حسینؑ سے کہا تھا بابا جب ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے۔ عقل و عشق کی کشمکش بڑی قدیم ہے اور ہمیشہ عشق فاتح رہتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس کی منظر کشی کی ہے:
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ واعظ نہ حکیم

عاشق اور وہ بھی عاشق خدا وہ ان دیکھے سودے کرتے ہیں اور ان کے لیے مقامات بھی ان دیکھے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا علامہ کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

اقبال بھی نسل نو کو عشق میں  مقام پیدا کرنے کا کہتے ہیں،کیونکہ اقبال عقل محض کی پیدوار معاشرے کو انسانیت کے لیے تباہی سمجھتے ہیں:
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر

سید لڑا، سید کے بیٹے، سید کی بیٹی، سید کے دوست اور سید کے ساتھ کام کرنے والے ہر طرف شہید ہی شہید ہیں۔ سید عاشق شہادت تھے۔ ان کا عشق یہی تھا کہ جب لبیک یاحسینؑ کہہ دیا تو پھر یہ جان حسینؑ کے راستے پر فدا ہے۔ اب اگر دشمن قتل کرنے کے بعد سر واپس کرے تو اسے بھی واپس دشمن کے منہ پر مارا جائے گا۔ جو اللہ کے راستے میں چلا گیا وہ واپس نہیں لیا جاتا۔ سید عربوں کی عزت اور مسلمانوں کے ماتھے کا جھومر تھے، سید اہل فلسطین کے لیے امید کی کرن تھے، سید جب بولتے تھے تو مشرق و مغرب میں گونچ ہوتی تھی۔ سید اس عصر کے بڑے انسان تھے جس نے مسلم تہذیب کی شناخت کے لیے جدوجہد کی۔ جب مغرب نے مسلمانوں کو محکوم بنا کر ان کے سوچ و فکر پر بھی اپنی تعلیم و تہذیب کے پہرے لگا دیئے تھے، سید نے ان کی تہذیب پر تین حرف بھیجے اور بتایا کہ ہم  اپنی تہذیب کے مالک ہیں۔ سیدعصر حاضر کے سب سے بڑے عرب خطیب تھے۔ سید  کی زندگی جہاد ہی جہاد تھی:
عاش مجاہدا و مات شہیدا
سید  مسلکوں سے بلند، اسلام کے پرچم بردار تھے۔ ایک عرب خاتون صحافی نے ٹویٹر پر لکھا: ایک شیعہ اہلسنت کے دفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔ ان کی شہادت پر جماعت اسلامی پاکستان نے پورے پاکستان میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سید حسن نصراللہ کی پوری زندگی اسرائیل کے خلاف جدوجہد سے عبارت ہے اور ان کی شہادت اس جدوجہد کو مزید تقویت دے گی، ان کی شہادت سے صیہونیت کے بدنما چہرے میں اضافہ ہوا۔ سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ دعا ہے کہ اللہ کریم شہید کی شہادت کو قبول فرمائے۔ دنیا بھر کے مظلومین نے سید کو آنسووں کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا۔ اللہ تعالی کا ہر فرمان حق ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہوتا ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (۲۳)
مومنین میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا، ان میں سے بعض نے اپنی ذمے داری کو پورا کیا اور ان میں سے بعض انتظار کر رہے ہیں اور وہ ذرا بھی نہیں بدلے۔
خبر کا کوڈ : 1163508
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش