1
Monday 30 Sep 2024 17:43

ٹارگٹ کلنگ پر مبنی صہیونی حکمت عملی بے سود کیوں؟

ٹارگٹ کلنگ پر مبنی صہیونی حکمت عملی بے سود کیوں؟
تحریر: علی احمدی
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی بھرپور فوجی، مالی، انٹیلی جنس اور سفارتی مدد سے غزہ اور لبنان میں غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ صیہونی رژیم نے تازہ ترین مجرمانہ اقدام انجام دیتے ہوئے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے محلے حارہ حریک پر 2 ہزار پاونڈ وزنی 85 بم گرا دیے جس کے نتیجے میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ شہید ہو گئے۔ اسلامی مزاحمت کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کا انحصار کبھی بھی شخصیات پر نہیں رہا اور آئندہ بھی نہیں رہے گا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے کسی اسلامی مزاحمتی گروہ کے سربراہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ہے اور آخری بار بھی نہیں ہو گا۔ لیکن ان شخصیات کی شہادت اس شجرہ طیبہ کی زندگی اور نشوونما رک جانے کا باعث نہیں بنی۔
 
لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح حزب اللہ لبنان کے سابق سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کی جرائم پیشہ صہیونی رژیم کے ہاتھوں شہادت کے بعد ان کا راستہ جاری و ساری رہا ہے اسی طرح شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد بھی یہ راستہ جاری رہے گا۔ حزب اللہ لبنان کی تشکیل سے لے کر آج تک اس کے تین سیکرٹری جنرل رہے ہیں جن میں سے دو شہید ہیں۔ سید عباس موسوی کو 16 فروری 1992ء کے دن غاصب صیہونی حکمرانوں نے شہید کر دیا تھا۔ شہید عباس موسوی شیخ راغب حرب کی برسی کے موقع پر جیشیت گاوں گئے ہوئے تھے اور بیروت واپسی پر صیہونی ہیلی کاپٹرز نے ان کی گاڑی کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا۔ اس وقت بھی صہیونی رژیم نے یہ اقدام لبنان میں موجود جاسوسوں سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر انجام دیا تھا۔ شہید سید عباس موسوی اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ شہید ہو گئے تھے۔
 
سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد حزب اللہ لبنان نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی اور گذشتہ 32 برس کے دوران خطے کی ایک بڑی فوجی طاقت بن کر سامنے آئی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس بھی اپنے سربراہان کی شہادت کے نتیجے میں نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ظاہر ہوئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے جب حماس کے پہلے سربراہ شہید احمد یاسین کی ٹارگٹ کلنگ کی تھی تو اس گمان باطل کا شکار تھی کہ یوں حماس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعد بھی شہید رانتیسی اور شہید اسماعیل ہنیہ سمیت اپنے کئی سربراہان شہید ہونے کے باوجود آج پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر غزہ میں غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ آج حماس کی سربراہی یحیی السنوار کے ہاتھ میں ہے جو 23 سال تک صہیونی رژیم کی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں اور اسرائیل ان کے نام سے بھی خوفزدہ ہے۔
 
شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غاصب صہیونی رژیم اور حماس میں جاری جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے جو پہلے سے ہی صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی بدعہدی کے باعث شدید تزلزل کا شکار تھے۔ قطر کے وزیراعظم نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اپنے پیغام میں لکھا تھا: "ایسے وقت جب جنگ بندی مذاکرات جاری تھے، سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ اور غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام نے ہمارے سامنے یہ سوال کھڑا کر دیا کہ جب ایک مذاکرات کار مدمقابل فریق کو قتل کر دیتا ہے تو کیسے ممکن ہے ثالثی کرنے والا کامیاب ہو جائے؟" حماس کے نئے سربراہ یحیی السنوار طوفان الاقصی آپریشن کے ماسٹر مائنڈ جانے جاتے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کو انجام پانے والا طوفان الاقصی آپریشن تاریخ میں فلسطینیوں کی ایک عظیم کامیابی ہے جبکہ اپنی ناجائز تشکیل کے بعد اسرائیل کی سب سے بڑی شکست ہے۔
 
یحیی السنوار کا حماس کے نئے سربراہ منتخب ہونے نے مقبوضہ فلسطین میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی اور غاصب صہیونی رژیم کو یہ پیغام دیا کہ حماس اب بھی طاقتور ہے اور نئے سربراہ کے زیر سایہ جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت سے برخوردار ہے۔ لہذا اگر صہیونی رژیم تیسرے ملک میں حماس کے سربراہ کو شہید کرنے میں کامیاب رہی تاکہ اس طرح طوفان الاقصی میں ذلت آمیز شکست کی خفت کم کر سکے تو اب اسے طوفان الاقصی کے ماسٹر مائنڈ یحیی السنوار کا سامنا ہے جو حماس کے نئے سربراہ منتخب ہو چکے ہیں۔ یحیی السنوار نے کمال شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل سے جاری جنگ بندی مذاکرات بند کر دیے اور ثالثی کرنے والے ممالک کو یہ پیغام بھیجا کہ جب تک غزہ میں صہیونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات جاری ہیں کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
 
جس طرح شہید عباس موسی اور شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادتوں کے بعد حزب اللہ لبنان اور حماس کی مزاحمتی سرگرمیوں اور فوجی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور وہ دن بدن مزید طاقتور ہوتی جا رہی ہیں اسی طرح شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد بھی حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت اور مزاحمتی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی۔ اس بارے میں امریکی نیوز چینل سی این این نے سید حسن نصراللہ کی شہادت سے پہلے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ صہیونی رژیم کی مزاحمتی گروہوں کے سربراہان کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی پالیسی انتہائی خطرناک اور بے سود ہے۔ سی این این نے اس بات پر تاکید کی کہ وہ سبق جو نیٹو نے بہت وقت بعد افغانستان میں سیکھا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ کمانڈرز کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ تحریکوں کو نابود نہیں کرتی بلکہ زیادہ جذباتی اور خطرناک جانشین سامنے آتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1163470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش