0
Wednesday 25 Sep 2024 12:50

اللہ کی جماعت ہی غالب آئے گی

اللہ کی جماعت ہی غالب آئے گی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اسرائیل کا جنگی جنون اور انسانیت دشمنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ مغرب اور امریکہ کی پشت پناہی نے جہاں اسے وجود بخشا، آج اسی کے بل بوتے پر یہ بدمست ہاتھی بن کر ہر اردگرد کی چیز کو روند رہا ہے۔ غزہ میں انسانیت کا قتل جاری ہے اور انسانی حقوق کے چمپئن آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ حزب اللہ کا شروع دن سے یہ موقف ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ پر حملوں سے باز نہیں آئے گا، وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں میدان عمل میں موجود رہیں گے اور اس کے لیے جس قسم کی قربانی دینی پڑے، وہ ضرور دیں گے۔ پیر سے اب تک اسرائیل کے فضائی حملوں میں درجنوں خواتین اور بچوں سمیت 558 افراد شہید ہوچکے ہیں۔لبنان کے وزیرِ صحت ڈاکٹر فراس ابیاد کے مطابق شہید ہونے والوں میں 50 بچے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر ابیاد کا کہنا ہے کہ حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 1,835 تک پہنچ چکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں طبی عملے کے افراد تمام مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کر رہے ہیں۔ یہ حملے کتنے بڑے تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسرائیل نے فقط ایک دن میں، جی ہاں صرف ایک دن میں سولہ سو مقامات پر حملے کیے ہیں۔ سولہ سو مقامات پر حملوں کے نتیجے میں کتنی تباہی ہوئی ہوگی، اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ پریشان ہوتے ہیں اور حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں کہ مزاحمت کا راستہ فعل الحال ترک کر دینا چاہیئے اور پوری توجہ تعلیم اور دیگر شعبہ جات کی طرف کرنی چاہیئے۔ بعض لوگ یہ بات پورے خلوص سے کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں یہی واحد راستہ ہے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے آپ انسانی تاریخ کا مطالعہ کر لیں، بڑی بڑی تہذیبوں کو شمشیر زنوں نے خس و خاشاک کی طرح ہوا میں اڑا دیا۔ اس لیے مزاحمت اور بھرپور مزاحمت اپنے گھوڑوں کو آمادہ وتیار رکھنا ہی سربلند ی کا راستہ ہے۔

کوئی طاقتور پر حملہ نہیں کرتا، صحافی نے امریکی صدر سے پوچھا کہ تم نے عراق پر حملہ کیوں کیا؟ اس نے کہا کہ ان کے پاس تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار تھے۔صحافی نے کہا تم شمالی کوریا پر حملہ کیوں نہیں کرتے تو اس نے جواب دیا کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے، اس لیے حملہ نہیں کرتے۔ یہ لطیفہ ہی بن گیا کہ تمہارا مقصد کچھ اور بہانہ ایٹمی ہتھیاروں کا لگا کر عراق کو برباد کر دیا، جہاں سچ میں ایٹمی ہتھیار ہیں، وہاں حملے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا گیا کہ آپ نے انسانیت دشمن اور تباہی کا ہتھیار بنایا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ایٹمی ہتھیار بنا کر جنگ کو روک دیا ہے۔ طاقت اور طاقت کا اظہار ہی آپ کے تحفظ اور امن کی علامت ہے۔ لوگ اس وقت بھی یہی باتیں کرتے تھے، جب حزب اللہ لبنان پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہی تھی کہ اسے جنگ کے میدان میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ زمانے نے دیکھا کہ اسرائیلی فورسز دم دبا کر بھاگ گئیں۔

2006ء کی 33 روزہ جنگ تو ہمارے سامنے کی بات ہے، تمام تر وسائل کے باوجود کیسے اسرائیلی فوج کو ناکامی کا سامنے کرنا پڑا، جسے دنیا نے دیکھا تھا۔ اللہ کے وعدوں پر یقین رکھنا چاہیئے۔ ارشاد قہار و جبار ہوتا ہے: "وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿۵۶﴾ "اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو (وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔" اس کی مدد کے بعد وسائل کی کثرت و قلت بھی کوئی معنی نہیں رکھتی، اس غالب کا ارشاد ہوتا ہے: "كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿۲۴۹﴾ "بسا اوقات ایک قلیل جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" حزب اللہ بڑی حکمت عملی کے ساتھ اسرائیل کے لیے زمین گرم کیے ہوئے ہے۔یہ درست ہے کہ اسرائیل کو فضائی اور انٹیلجنس میں امریکہ اور پورے یورپ کی مدد کی وجہ سے کچھ برتری حاصل ہے، مگر حالات پوری طرح انہی کے کنٹرول میں ہوں؟ ایسی بات نہیں ہے۔

ان سب کی فوجی طاقت اور صلاحیت اتنی ہی زیاد ہے تو یہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی غزہ پر پوری طرح قبضہ کیوں نہیں کرسکے؟ اور آج بھی ان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ لبنان ایک وسیع سرزمین ہے اور حزب اللہ محاصرے میں بھی نہیں ہے۔ اس کی سپلائی لائن مکمل طور پر بحال ہے۔ آغا نعیم قاسم نے اسرائیل پر ایک حملے بعد  کہا ہے کہ یہ تو بچے تھے میزائلوں کے، اس خاندان کے، جس کے بڑے میزائل تم سوچ نہیں سکتے کہ کہاں سے تم پر برسیں گے۔ شمالی اسرائیل اسرائیلیوں کے لیے رہنے کی جگہ نہیں رہا اور اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اسرائیل کے لوگ ایک سال سے کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسرائیل ہر صورت میں یہ چاہتا ہے کہ اس کے لوگ واپس آئیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حزب اللہ کے حملے رکیں اور حزب اللہ کے حملے رکنے کی صرف ایک صورت ہے کہ غزہ میں جنگ بند کر دی جائے۔ یہ اسرائیلی وزیراعظم کسی صورت نہیں کرے گا، کیونکہ یہ اس کے لیے سیاسی موت اور جنگ ہارنے کے مترادف ہوگا کہ جس حماس کے خاتمے کے لیے اس نے جنگ شروع کی تھی، وہ ابھی تک موجود ہے۔

کسی خوب کہا کہ اسرائیل کے دوست اور دشمن، دونوں ہی ابھی بھی بدترین کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اسرائیل رکنے والا نہیں ہے، کیونکہ خبروں کے مطابق وہ زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ "ہم کوئی بھی اقدام کرنے کو تیار ہیں" تاکہ اسرائیل کے شمال میں رہائشیوں کی واپسی کے اپنے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔ دی ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ فوجی لبنان پر زمینی حملے کے لیے مشقیں کر رہے تھے۔ ایک تیاری ان کے لبنان میں استقبال کی بھی ہو رہی ہے، جب یہ آئیں گے تو یہ لبنان کو اپنے لیے کافی مشکل ملک پائیں گے، یہاں کی زمین کے انچ انچ سے اس کے فرزند ان کے استقبال کے لیے نکلیں گے۔ مزاحمت بذات خود بہت اہم ہے اور بعض اوقات یہ کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے، بس یہ دیکھ لیں کہ ہمارا راستہ صحیح ہو۔
خبر کا کوڈ : 1162362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش