1
Tuesday 24 Sep 2024 20:20

نیتن یاہو کا ہار ہی ہار والا جوا

نیتن یاہو کا ہار ہی ہار والا جوا
تحریر: حنیف غفاری
 
گذشتہ چند دنوں سے لبنان کا دارالحکومت بیروت خطے اور عالمی نظم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ جنوبی لبنان پر اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت اور بربریت جس کے نتیجے میں اب تک کی رپورٹس کے مطابق 500 کے قریب لبنانی شہری شہید اور 1500 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں نیز اس سے پہلے پیجر دھماکوں کے ذریعے لبنان میں صیہونی رژیم کی سائبر دہشت گردی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم نے لبنان کی نسبت اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ ان امور کی وضاحت کرنے پر ایسے اسباب اور محرکات سامنے آتے ہیں جن کی روشنی میں غاصب صیہونی رژیم کی سائبر دہشت گردی کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے اہم ترین سبب نفسیاتی جنگ ہے۔ دوسرے الفاظ میں غاصب صیہونی رژیم موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
 
گذشتہ تقریباً ایک سال سے مغربی ایشیا خطے کے حالات شدید بحران کا شکار ہیں۔ اس بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس کی جانب سے صیہونی رژیم کے خلاف کامیاب طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صیہونی حکمرانوں نے غزہ کے خلاف وحشیانہ جارحیت کا آغاز کیا جو اب تک جاری ہے۔ غزہ پر صیہونی جارحیت کے آغاز سے ہی حزب اللہ لبنان نے غزہ میں مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کیلئے شمالی محاذ کھول دیا اور صیہونی رژیم کو اپنے ساتھ الجھائے رکھا تاکہ یوں جہاں تک ممکن ہو غزہ پر صیہونی فوج کا دباو کم کیا جا سکے۔ گذشتہ تقریباً ایک ہفتے سے غاصب صیہونی رژیم نے اپنی توجہ غزہ سے ہٹا کر لبنان پر مبذول کر دی ہے اور اس دوران نہ صرف بیروت میں حزب اللہ لبنان کے کئی اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ اور عام شہریوں پر سائبر حملے کئے گئے بلکہ دو دن سے جنوبی لبنان پر شدید فضائی بمباری بھی جاری ہے۔
 
صیہونی حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ حزب اللہ لبنان اس سائبر دہشت گردی اور بیروت میں اپنے اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کا ردعمل اس طریقے سے ظاہر کرے گی اور حزب اللہ لبنان کے جوابی حملوں کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ شروع ہونے کا خطرہ منڈلانے لگے گا۔ گذشتہ چند دنوں میں مغربی ذرائع ابلاغ نے ایسی خبریں شائع کی ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ حزب اللہ لبنان کے خلاف فوجی جارحیت کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے درپے ہے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے بیروت میں صیہونی رژیم کی سائبر دہشت گردی کو ایک بھرپور جنگ کا مقدمہ قرار دیا تھا۔ لہذا وسیع جنگ کی باتیں میدان جنگ کے تناظر میں نہیں بلکہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے جاری پروپیگنڈے کے ذریعے پھیلی ہیں۔
 
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ غزہ جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک کئی بار ایسی خبریں سامنے آ چکی ہیں جن میں دعوی کیا گیا تھا کہ نیتن یاہو کی جنگی کابینہ میں حزب اللہ لبنان کے خلاف وسیع فوجی کاروائی اور زمینی حملے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ لیکن اب تک ان باتوں نے کبھی بھی حقیقت کا روپ اختیار نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ غاصب صیہونی رژیم کے فیصلہ ساز حلقوں میں حزب اللہ لبنان کے خلاف فوجی کاروائی کے خدوخال تعین کرنے میں شدید اور گہرے اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات حتی نیتن یاہو کی کابینہ کے اندر تک پائے جاتے ہیں اور اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی وزیر جنگ یوآو گالانت کے درمیان لبنان کے خلاف جنگ کے بارے میں اختلافات اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ اب وہ تمام تر کوششوں کے باوجود چھپ بھی نہیں رہے اور منظرعام پر آنے لگے ہیں۔
 
دوسری طرف ہم نے دیکھا کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کس قدر شفاف اور واضح انداز میں تقریر کی اور اپنا موقف پیش کیا۔ سید حسن نصراللہ کی تقریر نے صیہونی رژیم کی نفسیاتی جنگ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ انہوں نے صیہونی رژیم کی سائبر دہشت گردی سے ہونے والے نقصان کا اعتراف کیا لیکن واضح کر دیا کہ اگر احتیاطی تدابیر نہ ہوتیں تو اس حملے سے بہت بڑا جانی نقصان ہو جانا تھا اور صیہونی رژیم کا مقصد بھی یہی تھا کہ حزب اللہ کا بڑا جانی نقصان کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سید حسن نصراللہ نے اسلامی مزاحمت کی سرخ لکیریں بھی بیان کر دیں اور اس بات پر زور دیا کہ صیہونی رژیم کے دہشت گردانہ اقدامات کا مقصد حزب اللہ لبنان کو غزہ کی حمایت ترک کر دینے پر مجبور کرنا تھا۔ سید حسن نصراللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ لبنان ہر گز مظلوم فلسطینی قوم کی حمایت ترک نہیں کرے گی اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی۔
 
سید حسن نصراللہ نے اربعین آپریشن میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کا بھی ذکر کیا اور یوں صیہونیوں کے اس تاثر کا ازالہ کر دیا کہ اربعین آپریشن ناکامی کا شکار رہا ہے۔ لبنان کے خلاف حالیہ دہشت گردانہ اقدام اور فوجی جارحیت کا واحد مقصد صیہونی حکمرانوں کی جانب سے دنیا والوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ جنگ میں ہمارا پلڑہ بھاری ہے اور غزہ جنگ میں شکست کی خفت مٹانا ہے۔ لبنان پر اسرائیل کا فوجی حملہ اس بے بسی اور کمزوری کا نتیجہ ہے جو گذشتہ ایک سال میں غزہ جنگ کے دوران ظاہر ہوئی ہے اور وہ اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے اربعین آپریشن میں صیہونی ملٹری انٹیلی جنس کے مرکز یونٹ 8200 پر شدید حملے انجام پائے جن میں بڑی تعداد میں صیہونی افسر ہلاک اور زخمی ہوئے۔ صیہونی رژیم لبنان پر فوجی جارحیت سے حزب اللہ کو پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی لیکن اس مقصد میں ناکام ہوئی ہے اور اب اس کے پاس اپنی شکست تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔
خبر کا کوڈ : 1162147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش