0
Tuesday 24 Sep 2024 01:47

فرانسیسی صدر کا روسی صدر کو غیر متوقع پیغام

فرانسیسی صدر کا روسی صدر کو غیر متوقع پیغام
تحریر: مرتضیٰ مکی

یورپی ممالک اور روس کے تعلقات کے تناظر میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے الفاظ شہ سرخیوں میں بڑے پیمانے پر میڈیا میں آ رہے ہیں۔ فرانس کے صدر نے ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ یورپ کو اس براعظم میں امن و استحکام کے قیام اور اسے جاری رکھنے کی خاطر روس کے ساتھ اپنے موجودہ تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔ میکرون نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ یورپ کی جغرافیائی حقیقت کو فراموش نہ کیا جائے اور کہا: ہمیں یورپ میں امن کے بارے میں نئے انداز میں سوچنا چاہیئے، کیونکہ نیٹو اور یورپی براعظم یقینی طور پر یورپی یونین کے رکن ممالک یا اس کے رکن ممالک تک محدود نہیں ہے۔ فرانس کے صدر نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ موجودہ عالمی نظام، کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کے سالوں میں تشکیل دیا گیا تھا،  اب نئے چیلنجوں کا جواب دینے کی ضروری صلاحیت سے عاری ہے۔

میکرون نے اس بات پر زور دیا کہ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل کی جائے، کیونکہ موجودہ ورلڈ آرڈر نامکمل اور غیر منصفانہ ہے۔ ایمانوئل میکرون کے یہ الفاظ فرانسیسی صدر کے چند ماہ قبل یوکرین میں زمینی افواج بھیجنے اور گذشتہ تین دہائیوں میں روس کے حوالے سے یورپی یونین کی پالیسی سے بالکل مختلف ہیں۔ گذشتہ مارچ کے وسط میں فرانسیسی اخبار "لوپاریزین" کے ساتھ ایک انٹرویو میں، فرانسیسی صدر نے اعلان کیا تھا کہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے زمینی آپریشن انجام دیا جائے۔ فروری کے آخر میں، میکرون نے دعویٰ کیا تھا کہ پیرس روس کو یوکرین میں جنگ جیتنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔" فرانسیسی صدر کے ان عہدوں کو جرمنی اور بعض دیگر یورپی حکومتوں کی واضح مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کی طرف مغربی بلاک کی پالیسی یہ تھی کہ اس ملک کو اس کی سرحدوں کے اندر رکھا جائے۔ امریکہ نے مشرقی یورپ اور آزاد جمہوریہ تک نیٹو کی توسیع کے ذریعے اس پالیسی پر عمل کیا۔ اس یونین کی توسیع کے ساتھ ہی یورپی یونین نے روس کو اپنی سرحدوں میں محدود کرنے کا سیاسی اور معاشی دائرہ مکمل کر لیا۔ بلاشبہ گذشتہ تین دہائیوں میں یورپیوں نے روس کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے کر اپنی گیس اور تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی اور روس میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور اقتصادی تبادلے میں اضافہ کرکے اس ملک میں سیاسی اور سماجی ترقی کے ذریعے نرم جنگ کا استفادہ کیا۔ بحیرہ ایڈریاٹک اور بحیرہ اسود سے یورپ تک پھیلی ہوئی پائپ لائنیں اور سوویت دور سے بچ جانے والی پائپ لائنوں کا استعمال بھی اسی مقصد کے مطابق تھا۔

2014ء میں یوکرین اور 2008ء میں جارجیا میں امریکہ اور یورپی یونین کی یہ پالیسی روس کو سوویت یونین کی ان دو آزاد جمہوریہ میں مداخلت کا باعث بنی۔ یورپی یونین نے روس پر قابو پانے کی پالیسی کے تسلسل سے عارضی طور پر دستبردار ہو کر بحران پر قابو پانے اور روس کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن یوکرین کی نیٹو کا رکن بننے کی کوشش اور امریکہ کی حمایت کے بعد روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ روس کے اس اقدام سے یورپ میں سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی مساوات میں بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ نارڈ اسٹریم 1 اور 2 گیس پائپ لائنیں بحیرہ ایڈریاٹک میں پھٹ گئیں، جس سے یورپ کے سب سے بڑے گیس فراہم کنندہ، یورپ کو روسی گیس کی برآمدات منقطع ہوگئیں۔

اب یوکرین میں اڑھائی سال کی جنگ اور یوکرین کے لیے یورپی یونین اور امریکہ کی مکمل حمایت کے بعد یوکرین میں جنگ جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے، حالانکہ اس جنگ نے روس کو مغربی پابندیوں اور جنگ کے اخراجات کی وجہ سے  وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے، البتہ جنگ کا دائرہ وسیع کرنے سے یورپ میں سلامتی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ زیادہ تر یورپی ممالک خصوصاً جرمنی اور فرانس کی جانب سے یوکرین کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روسی سرزمین میں استعمال کرنے کی مخالفت کی ایک وجہ یہی خدشات ہیں کہ اس وجہ سے یورپ میں امن کی سرگوشیاں بڑھی ہیں اور آنے والے ہفتوں میں ہم امن کی عملی کوششوں کا مشاہدہ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین میں اڑھائی سال کی جنگ کے بعد میکرون کا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ کسی بھی معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہونا گذشتہ اڑھائی سالوں میں یورپی یونین کی کسی بڑی حکومت کی طرف سے روس کو دیا گیا سب سے مضبوط اشارہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1162037
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش