1
Sunday 22 Sep 2024 22:55

امریکہ اور صیہونی رژیم کی ہائبرڈ جنگ

امریکہ اور صیہونی رژیم کی ہائبرڈ جنگ
تحریر: ہادی محمدی
 
فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے 7 اکتوبر 2023ء کے دن جو عظیم طوفان الاقصی فوجی آپریشن انجام دیا اس نے غاصب صیہونی رژیم کی فوجی اور سیکورٹی ڈاکٹرائن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ اس کے بعد سے اب تک غاصب صیہونی رژیم نے جنون آمیز رویہ اپنا رکھا ہے اور امریکہ اور مغربی طاقتوں کی بھرپور اور ہمہ جہت مدد اور حمایت کے ذریعے وحشیانہ جارحیت اور بربریت اپنا رکھی ہے۔ جنگی جرائم کے ارتکاب اور وحشیانہ پن میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت کی اصل وجہ یہ ہے کہ عالم اسلام پر ان کا تسلط اور اسلامی دنیا میں موجود قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کا انحصار صیہونی رژیم کے منحوس وجود پر ہے اور اگر یہ جعلی غاصب رژیم نابود ہو جاتی ہے تو ان کے تسلط اور مفادات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
 
گذشتہ ایک سال کے دوران انجام پانے والی فلسطینیوں کی نسل کشی اور صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کے تناظر میں امریکہ اور مغربی حکومتیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ صرف فوجی جنگ کے ذریعے نہ صرف مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن نہیں بلکہ اس طرح غاصب صیہونی رژیم تیزی سے زوال اور نابودی کی جانب گامزن ہو رہی ہے لہذا انہوں نے چند ماہ پہلے جب صیہونی رژیم نے رفح کراسنگ اور فلاڈیلفیا پر فوجی قبضہ کیا تو ایک نیا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کی روشنی میں امریکہ نے بظاہر غزہ جنگ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ امریکی حکمران جنگ کے مخالف ہیں لیکن صیہونی حکمران جنگ جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ یوں اس وقت سے ایک نئی ہائبرڈ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس میں مرکزی کردار امریکی حکمران ادا کر رہے ہیں۔
 
 اس نئی فوجی حکمت عملی میں امریکہ کا کردار فریبکاری اور منافقت پر مبنی ہے جس میں وائٹ ہاوس خود کو جنگ کے پھیلاو کا مخالف ظاہر کر رہا ہے جبکہ اندر کھاتے اسرائیل کی بھرپور فوجی، مالی، سیاسی اور اخلاقی حمایت بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔ یوں امریکہ اسلامی مزاحمتی بلاک کو غزہ میں اسلامی مزاحمت سے دور کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونی رژیم کیلئے کامیابیوں کے مواقع فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ کی جانب سے فریبکاری اور منافقت پر مبنی یہ نئی حکمت عملی اپنانے کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی بھرپور اور اعلانیہ حمایت کے سبب عالمی رائے عامہ میں امریکہ کا چہرہ خراب ہوتا جا رہا تھا اور خود امریکی شہری بھی اپنی حکومت سے متنفر ہونے لگے تھے۔ لہذا امریکہ نے یہ نئی چال چلی اور درپردہ سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ بظاہر اسرائیل کی وحشی گری اور بربریت کی مخالفت کرنے لگا۔
 
امریکہ اور مغربی ممالک نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس ہائبرڈ جنگ میں اپنا ساتھ دینے پر تیار کرنے کیلئے صیہونی رژیم کو ہر قسم کی جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اور اسے وقتی کامیابیوں کا موقع فراہم کر کے اسلامی مزاحمت کو تھکا کر اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جدید ترین الیکٹرانک آلات کے ذریعے غزہ میں اسلامی مزاحمت کے کمانڈرز کی جاسوسی کی جاتی ہے اور ان کی جگہ کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی جگہ معلوم کرنے کیلئے مختلف مقامات پر مائیکروفون نصب کئے جاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک ایسی ہی جاسوسی سرگرمیاں لبنان میں جاری رکھے ہوئے ہیں اور حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہی سرگرمیوں کا نتیجہ شہید فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ، پیجر دھماکے، وائرلیس دھماکے اور حال ہی میں حزب اللہ لبنان کی رضوان یونٹ کے بارہ اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت ہے۔
 
امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے مذکورہ بالا اقدامات انجام دینے کی وجہ حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور ایران کی جانب سے انتقامی کاروائی کا حتمی ہو جانا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کا انتقام غاصب صیہونی رژیم کے زوال اور نابودی پر منتج ہو گا لہذا وہ ہر ایسا اقدام انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان کی نظر میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے عزم راسخ کو کمزور کر سکتا ہو یا اس کی بنیادی حکمت عملی میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہو اور اس کی ممکنہ جوابی کاروائی کو موخر یا کالعدم کر سکتا ہو۔ اس وقت امریکہ اس پوزیشن میں نہیں کہ یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ کسی اور جنگ میں بھی براہ راست شریک ہو سکے لہذا اس نے ہائبرڈ جنگ کے ذریعے اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی کامیابی یقینی بنانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
 
اس پالیسی کے تحت امریکہ مختلف قسم کے ہتھکنڈوں، فریبکاریوں، نفسیاتی جنگ اور مغرب نواز حلقوں کو لالچ دینے کے ذریعے علاقائی امور اور فلسطین اور غزہ کے مسائل میں اسلامی مزاحمتی بلاک کا کردار کم کرنے کے درپے ہے۔ لہذا اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل قوتوں کو بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور دشمن کے حیلوں اور مکروفریب سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف فوری طور پر جرائم پیشہ صیہونی رژیم کے خلاف سخت انتقامی کاروائی کر کے اسے مجرمانہ اقدامات کی سزا دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمتی بلاک کی تقویت اور پھیلاو کی پالیسی اپنانی چاہئے۔ اسی طرح صیہونی رژیم اور خاص طور پر امریکہ، جو غزہ اور خطے میں مجرمانہ جنگ کا اصل کردار ہے، کے خلاف تمام تر موثر طریقے بھی ایجنڈے میں شامل ہونے چاہئیں۔ جو چیز امریکہ اور صیہونی رژیم کی اس ہائبرڈ جنگ کو ناکام بنا سکتی ہے وہ اس استعماری جنگ میں اسے زیادہ سے زیادہ نقصان اور زک پہنچانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1161685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش