0
Sunday 22 Sep 2024 01:34

ہفتہ دفاع مقدس

ہفتہ دفاع مقدس
تحریر: سید رضی عمادی

عراقی بعثی حکومت کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ 8 سالہ جنگ کے خاتمے کو چھتیس سال گزر چکے ہیں۔ 36 سال بعد اس جنگ کے کئی اسباق مزید واضح ہوگئے ہیں، جن میں چار اسباق بہت زیادہ اہم ہیں۔

دفاع مقدس کا پہلا سبق یہ ہے کہ اتحاد مسائل اور دشمن پر قابو پانے کا باعث بنتا ہے۔ عراق کی بعثی حکومت کو 8 سالہ جنگ کے دوران تمام علاقائی اور عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی، لیکن آخرکار وہ ایرانی سرزمین کا ایک ٹکڑا بھی حاصل نہیں  کرسکی۔ مقدس دفاع قومی یکجہتی کے واضح ترین مظہروں میں سے ایک تھا۔ بلا لحاظ مذہب، نسل اور نظریات کے قومی مفادات ایران میں تمام فکری، نسلی اور سیاسی طبقوں کے درمیان سرخ لکیر اور مشترکہ بنیاد ہے، جسے ایک قیمتی اور فیصلہ کن فکری سرمایہ اور قومی فیصلوں میں اتحاد ساز قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ہفتہ دفاع مقدس کے موقع پر مسلح افواج کی پریڈ کے موقع پر کہا کہ یہ عسکری قوتوں، عوام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام پیارے عوام کا اتحاد تھا، جو ایران کے خلاف وحشیانہ جارحیت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا۔ استعماری ممالک نے ایران کو تباہ کرنے اور اسلامی انقلاب کو بے اثر کرنے اور مایوسی کی طرف لے جانے کے لیے یہ منصوبہ ڈیزائن کیا تھا۔

دفاع مقدس کا دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ ملک کی ارضی سالمیت کے دفاع کے لیے ضروری ہے کہ عسکری قوت کو اس حد تک اپ گریڈ کیا جائے کہ دشمن پہلے تو حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے اور اگر وہ ایسی کارروائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے اس طرح سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے کہ دشمن کو ایسی غلطی کی بھاری قیمت چکانی پڑے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ حکمت عملی جو دشمن کی میزائل صلاحیت کے بارے میں مذاکرات کی خواہش کے مقابلے میں سمجھوتہ نہیں کرتی، ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف مذاکرات نہیں کیے جانے چاہئیں بلکہ دفاعی صلاحیت کو بہتر کرنے کی کسی بھی کوشش میں ناکام نہیں ہونا چاہیئے۔ ایران کی سلامتی کا انحصار مسلح افواج کی طاقت پر ہے۔ اس حوالے سے مسعود پزشکیان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "اگر یہ مسلح افواج طاقتور اور قابل نہ ہوتیں تو آج ایران محفوظ نہیں ہوتا اور ملک اور لوگوں کو تحفظ اور امن میسر نہیں ہوتا۔"

مقدس دفاع کا تیسرا اہم سبق یہ ہے کہ غیر ملکی دشمنوں کے خلاف مستحکم سلامتی اور دفاع کے لیے کسی بیرونی طاقت پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے۔ عراق کی بعثی حکومت نے بیرونی طاقتوں پر بھروسہ کرکے ایران پر حملہ شروع کیا تھا اور اس کا تاثر یہ تھا کہ وہ بیرونی طاقتوں کی مدد سے ایران کو شکست دے سکتی ہے اور اپنے عزائم کو حاصل کرسکتی ہے، لیکن وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔آٹھ سال کی مسلط کردہ جنگ میں عالمی طاقتیں صدام کے ساتھ تھیں، لیکن عراق کے کویت پر حملے کے بعد عراق پر حملہ کرتے ہوئے عراق کے سابقہ حامیوں نے اس ملک کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر دیں، 2003ء میں انہوں نے اس ملک کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور بعثی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ عراق میں بعثی حکومت کا حشر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ غیر ملکی طاقتوں پر بھروسہ اور انحصار کسی بھی ملک کو خاص طور پر اسلامی ممالک کو مضبوط نہیں بنا سکتا۔

مقدس دفاع کا چوتھا اہم سبق یہ ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان مضبوط بندھن ہی ملک میں اہم تبدیلیوں کا ذریعہ بن سکتا ہے، عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کے بہت سے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ 8 سالہ جنگ میں فتح کی ایک وجہ عوام اور حکومت کے درمیان گہرا تعلق تھا اور دوسرے لفظوں میں اس وقت کا اعلیٰ سماجی سرمایہ جو کہ اسلامی انقلاب کا نتیجہ تھا، عوام کی حمایت تھا۔ عراق اور ایران کے درمیان 8 سالہ جنگ کے خاتمے کے 36 سال بعد اہم مسئلہ اس سماجی سرمائے کا تحفظ اور فروغ ہے۔ عوامی حمایت یعنی اس سماجی سرمائے کا تحفظ سیاستدانوں کی بنیادی ترجیح ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1161544
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش