تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
امام خمینیؒ نے مسلم دنیا کو وحدت کی لڑی میں پرونے کے لیے دو عظیم الشان تحفے دیئے۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تاکہ مسلم امت قبلہ اول کے نام پر باہمی اتحاد کی راہ کو اختیار کرے اور قبلہ اول کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں فلسطینی بھائیوں کی مددگار رہے۔ دوسرا تحفہ خاتم الانبیاءﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے ہفتہ وحدت منانے کا اعلان تھا۔ آپ نے ان ایام کو رسول اکرمﷺ کی سیرت کو عام کرنے کے لیے خاص کر دیا اور آپﷺ کے پیغام امن و وحدت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے پورا ہفتہ منانے کا اعلان کیا۔ ہر دو کاموں کی اپنی برکات ہیں، یوم القدس کے موقع پر مسلمان پرجوش انداز میں متحدہ ہو کر قبلہ اول کی آزادی کے لیے آواز بلند کر تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے ایجنٹ سربراہان مملکت کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات نارمل کرنا ممکن نہیں رہا۔ آج ہم دیکھتے کہ جب ربیع الاول کے جلوس امام بارگاہوں اور شیعہ آبادیوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو لوگ ان پر پھول برسا رہے ہوتے ہیں۔ شیعہ منقبت خواں نعتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ گلی گلی، محلہ محلہ وحدت کا عملی اظہار ہوتا ہے۔
رہبر معظم نے ایران کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے اہلسنت علمائے کرام سے ملاقات کی اور ان سے خظاب کیا۔ یہ خطاب پورے کا پورا سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں یہاں اس خطاب کے دو نکات پر بات کرنا چاہوں گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ دو نکات پوری امت کے مرض کا علاج ہیں۔ یاد رکھیں، شناخت کسی بھی شخص اور قوم کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ شناخت کی بنیاد پر بہت سے لوگ قتل ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی تحریکیں بلوچ، پنجابی، پٹھان، سندھی اور کشمیری ہونے کی بنیاد پر جنم لیتی ہیں۔ رہبر معظم نے اسلامی شناخت کے اپنانے پر زور دیا۔ آپ نے "امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ دشمن امت اسلامی کا تشخص مٹانے کی مذموم سازش کر رہے ہیں، لہذا اس موضوع کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنا قومی تشخص سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں امت اسلامی کے تشخص کو ختم نہیں کرسکتی ہیں۔ دشمن مسلمانوں کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ غزہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی مشکلات سے دوسرے مسلمانوں کو درد محسوس نہ ہونا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔" بقول اقبال:
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خُوں، مِٹ جائے گا
تُرکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گُہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مُقّدم ہوگئی
اُڑ گیا دُنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہ گزر
رہبر معظم نے دوسری بات وحدت امت کی فرمائی ہے۔ یقینا آج امت مسلمہ کے بکھرے ہونے کی وجہ سے ہم باہم لڑ جھگڑ رہیں ہیں۔ ہمارے اختلافات ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "دشمن عالم اسلام مخصوصاً ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دشمن اسلامی ممالک میں مختلف وسائل استعمال کرتے ہوئے شیعہ اور سنی کے درمیان جدائی ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس کام کے لئے بعض افراد کو دوسرے فرقے کے بارے میں بدگوئی اور توہین جیسے کاموں کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وحدت اور اتحاد پر تاکید کی اور کہا کہ وحدت قرآنی اصولوں میں سے ایک ہے۔" جب ہم کہتے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور تمام مسلمان ایک امت ہیں تو ان کا دکھ درد بھی ایک ہی ہے۔ ایسے میں دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم و جبر ہوگا، اس کے خلاف آواز اٹھانا ہر مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے۔
پوری دنیا جاتنی ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں پر ہندوتوا کا جبر مسلط ہے اور وہ مسلم شناخت پر مسلسل حملہ آور ہے۔ مسلمانوں کی شناخت ان سے چھینی جا رہی ہے، کشمیر کے مسلمانوں سے جمہوری آزادیاں تک چھین لی گئیں ہیں۔ پورے ہندوستان میں گاو کشی اور دیگر عناوین سے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ رہبر معظم نے ہندوستان کے ان مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت پر آواز اٹھائی ہے۔ آپ نے ٹویٹر پر لکھا ہے :"اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ ہمیں امت مسلمہ کے مشترکہ تشخص سے لاتعلق رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت تک مسلمان نہیں سمجھ سکتے، جب تک ہم میانمار، غزہ، انڈیا یا کسی اور جگہ کے مسلمانوں کے مصائب سے غافل ہوں۔ جو انھیں درپیش ہیں۔" اس کے بعد انھوں نے "اتحاد" پر زور دیا اور اسے کسی حکمت عملی کے بجائے اسلام کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ قرآن میں موجود ہے۔"
رہبر معظم کے اس بیان پر ہندوتوا کا سوشل میڈیا گویا آگ بگولہ ہوگیا اور خون اگلنے لگا۔ ایسے لگ رہا تھا، جیسے کوئی انہونی بات کر دی گئی ہے۔ دیکھیں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا کے تمام بڑے اداروں کی رپورٹس دیکھ لیں، سب میں انڈین مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا ذکر ہے۔ عام لوگوں کو تو چھوڑیں، انڈین دفتر خارجہ غیر ضروری ردعمل دیتا ہے اور حقیقت سے آنکھیں چراتا ہے: انڈین دفتر خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ "ہم ایران کے رہبر اعلیٰ کی جانب سے انڈیا میں اقلیتوں کے بارے میں کیے گئے تبصروں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ یہ غلط معلومات ہیں اور ناقابل قبول ہیں۔"
یہ پہلا بیان نہیں ہے، 2020ء میں جب دلی میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا تھا، اس وقت بھی رہبر معظم نے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی تھی اور کہا تھا "وہ ہندو انتہاء پسندوں اور ان کی جماعتوں کو مسلمانوں کے قتل عام سے روکیں، ورنہ وہ دنیا میں تنہا پڑ جائے گا۔" جہاں جہاں مسلمان یا کوئی بھی انسان جبر کا شکار ہو، وہاں آواز بلند کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ آج ریاستی مفادات اور دیگر مفادات کے تابع حکمران مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کرتے، ان کے لیے آواز بھی بلند نہیں کرتے۔ رہبر معظم نے تمام مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرکے حق ادا کر دیا۔ رہبر معظم خود کو اقبال کے راستے کا راہی قرار دیتے ہیں اور اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر