تحریر: سید منیر حسین گیلانی
حزب اللہ لبنان کے کارکنوں اور رہنماوں کے زیراستعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز دھماکوں سے شہادتوں اور زخمیوں کی آوازیں پوری دنیا میں سنی گئی ہیں اور نئے انداز کی اسرائیلی دہشتگردی سے صورتحال خاصی خطرناک محسوس کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کا اجلاس بلانے اور عالمی سطح پر تحقیقات کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ یہ تو تازہ ترین واقعہ تھا، جس کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن مجھے اپنے ملک کے معروف صحافی (نجم سیٹھی) کا اسرائیل کے بارے میں ٹی وی تبصرہ حیران اور پھر پریشان کر رہا ہے، جس میں وہ غاصب ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف مرحوم کے دور میں پاکستان کے مقتدر اداروں کے اندر یہ بحث ہو رہی تھی کہ پاکستان نے اسرائیل کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہندوستان نے اسرائیل کیساتھ اپنے تجارتی سائنسی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تعلقات کو بہتر کیا۔ اس لئے پاکستان، انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمیں بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات کی بہتری کے حوالے سے ہاتھ آگے بڑھانا چاہیئے، جس کی پہلی بنیاد اسے تسلیم کرنا ہوگا اور استدلال یہ دیا جاتا تھا کہ جب اسرائیل کے ہمسایہ عرب ممالک کیساتھ تعلقات اچھے ہیں اور اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں تو ہمیں اسرائیل کے قریب ہونے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے۔؟
اس حوالے سے تجربہ کار پاکستانی صحافی کی گفتگو سے یہ واضح تاثر مل رہا تھا کہ ان دنوں میں سابقہ دور حکومت کے حوالے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات تو کر رہے تھے، مگر میڈیا میں حکومت یہ بات بتاتی تھی اور نہ ہی تسلیم کرتی تھی، کیونکہ شدید عوامی ردعمل کا خوف تھا، جبکہ انہیں دنوں میں پاکستان کی ایک مذہبی جماعت کے رہنماء (مولانا اجمل قادری) کے اسرائیل کے دورے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنی تھیں۔ پھر اسی دوران جنرل پرویز مشرف حکومت کے وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری کی قاہرہ میں اہم اسرائیلی شخصیات سے ملاقات کا ذکر بھی ہوا۔ منصوبہ بندی کیساتھ ہونیوالی اس ملاقات کو اتفاقی قرار دیا گیا تھا، کیونکہ وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اسرائیل کیساتھ روابط کے حوالے سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی۔
میں حیران ہوں کہ محترم زیرک صحافی اور تجزیہ کار (نجم سیٹھی) کے ذہن سے امریکی عروج محو نہیں ہو رہا اور وہ پرانی باتیں کر رہے ہیں کہ جب بھی اسرائیل فلسطین کی جنگ سے فارغ ہوا تو وہ تمام عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ بھی مقام حیرت اور زمینی حقائق سے نظریں چرانے، امریکی ایجنڈے کو فروغ دینے کی تڑپ اور بے حسی کی انتہا ہے کہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والا صحافی اسرائیل کیلئے مسلمان ممالک کے اندر تعلقات کی نئی راہیں دکھانے اور امریکہ کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے کے حوالے سے زمینہ ہموار کرتے نظر آرہا ہے، لیکن 7 اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے تقریباً ایک سال کے واقعات اور مظلوم فلسطینیوں کی استقامت، اسرائیل سے صیہونیوں کے انخلا، تل ابیب کی سڑکوں پر جاری احتجاج انہیں نظر نہیں آرہا۔ ایک سال کی جنگ کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو پوری دنیا کی طاغوتی شیطانی قوتوں کے مقابلے میں حماس کے مٹھی بھر نوجوانوں کی کامیابیوں کا ذکر نجم سیٹھی صاحب نہیں کرتے۔
ایک سال سے جاری جنگ میں آج بھی حماس کا پلڑا بھاری ہے اور فلسطینی کاز کے حوالے سے اسرائیل کیخلاف پوری دنیا میں احتجاج کا سلسلہ جو رونما ہوا ہے، اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ حماس کی فلسطینی کاز کیساتھ لبنان کی حزب اللہ، یمن کے حوثی مجاہدین انصار اللہ، شام اور عراق کی مزاحمتی اسلامی تحریکوں کی حمایت سے قوتیں یکجا ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ جیسی بڑی طاقت "بحر احمر" میں یمن کی انصار اللہ کے حملوں کے خوف سے اسرائیل کے دفاع کیلئے لنگر انداز تین میں سے دو بحری بیڑے ریڈ سی سے نکال کر واپس لے گیا ہے، جبکہ یمن کے حوثیوں نے تل ابیب ایئرپورٹ کے قریب جو سپر سونک میزائل حملہ کیا، یہ میزائل امریکی بحری بیڑے کے اوپر سے گزرا اور سعودی عرب کی فضائی حدود کو کراس کرتے ہوئے اسرائیل کے تمام دفاعی نظام کو چکمہ دیتے ہوئے اسرائیلی دارالحکومت میں گرا۔
پوری دنیا حیران ہے کہ حوثیوں کے پاس یہ سبک رفتار میزائل کیسے آیا، جس نے اسرائیل کے تحفظ کیلئے نصب عالمی دفاعی سسٹم کو ناکام بنایا اور اپنے ہدف کو ٹارگٹ کیا۔ اس کے بعد حوثیوں نے ایک پمفلٹ کی صورت میں تل ابیب کے شہر میں مزید میزائل حملوں کے خطرات سے عوام کو خبردار کیا۔ جس سے 20 لاکھ اسرائیلی اپنے گھروں کو چھوڑ کر پناہ گاہوں میں چھپ گئے۔ خدا کی قدرت دیکھیں، وہ اسرائیل جو فلسطینیوں پر پمفلٹ پھینک کر پیغام دیتا تھا کہ ان علاقوں کو خالی کر دیں۔ آج انصار اللہ اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت میں وہ اسرائیلیوں سے نکل جانے کا کہہ رہی ہے۔
میں محترم نجم سیٹھی صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کی اس گفتگو سے اسرائیل کی حمایت کی"بدبو" آرہی ہے جبکہ حماس کے مٹھی بھر جذبہ شہادت سے سرشار جوانوں نے ایک سال تک اسرائیل کا مقابلہ کیا ہے، یہ وہ غاصب صیہونی ریاست ہے، جس نے بمباری سے علاقے کو نیست و نابود کرنے کا عزم کیا تھا۔ وہی اسرئیل آج اپنے بین الاقوامی دوستوں امریکہ، فرانس، جرمنی برطانیہ سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔ جناب نجم سیٹھی صاحب! آج وہ دور نہیں کہ جب امریکہ "نیو ورلڈ آرڈر" کے نام سے مختلف ممالک میں جغرافیائی تبدیلیوں کے حوالے سے منصوبہ دیتا تھا، وہ بھی ناکام ہوا، جبکہ اللہ کے فضل و کرم سے آج امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس کی حمایت کے باوجود ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، جیسا کہ ہمارا نعرہ ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ برصغیر میں کشمیر، کشمیریوں کا ہے۔ ان مقبوضہ ریاستوں کو آزاد کرانے کیلئے مجاہدین قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
میں اس طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب جناب عمران خان صاحب کی قیادت میں تحریک انصاف کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں ایک خاتون رکن نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تعلقات اور معاہدوں کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ ہمیں اسرائیل سے تعلقات قائم رکھنے چاہیئں، عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں کیا مسئلہ ہے۔؟ اسی طرح میں یہ یاد دہانی بھی کروانا چاہتا ہوں کہ امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق آئندہ صدر کملا ہیریس ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، ان کے منصب سنبھالنے سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ عمران خان کے دور حکومت کی ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے، جو ایران کے علماء کو تسلیم کرنے سے انکاری مگر عراقی علماء کو تسلیم کرنے کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ہمیں ڈرامے بازی بند کرکے اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔ ظاہر ہے یہ لوگ معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں کہ امن قائم ہوگا۔ عالمی طاقتوں سے تعلقات بہتر ہوں گے۔ سرمایہ کاری آئے گی۔ آئی ایم ایف ہمیں قرضے آسانی سے دے گا۔ مگر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا موقف بھول جاتے ہیں، جنہوں نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ظاہر ہے اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ فلسطینی قوم اور فلسطینی ریاست کا وجود نہیں رہے گا۔ پھر طاقتور کو حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی ملک پر قبضہ کر لے اور بعد میں دنیا سے کہے کہ وہ اسے تسلیم کر لے۔ تو اسے اسلامی تعلیمات اور نہ ہی اخلاقیات تسلیم کرتی ہیں۔ ہاں ظلم و ستم پر مبنی استعماری ایجنڈا ضرور ہوگا۔ آزاد فلسطینی ریاست پر اسرائیلی قبضہ کے حوالے سے ایک مکتبہ فکر اس کی مزاحمت جبکہ دوسرا اس کو تسلیم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اگر قبضہ تسلیم کر لیا جائے تو کتنے ظالم حکمران ہیں، جنہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ انصاف نہیں، ظلم اور ظالم کا ساتھی بننے کے مترادف ہے۔ اس طرح کشمیر پر بھی قبضہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر اس سے پہلو تہی اختیار کی جائے کہ فساد برپا ہوگا تو ہم سمجھتے ہیں کہ جان کے چلے جانے کے ڈر سے اگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہوتا تو جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب نہ ہوتی ہے اور نہ ہی کربلا میں 72 شہداء کا حسینی لشکر یزیدی فوج کو شکست دیتا۔