تحریر: شریف ولی کھرمنگی
گذشتہ روز موساد کے سائبر اٹیک میں 12 لبنانی شہید ہوئے، 3 ہزار کے قریب زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ جدید دنیا کی جمہوریت، تہذیب اور علمی فراوانی کے دیسی فری لانس قصیدہ خوانوں کیلئے مغربی انسان دوستی کا ایک اور انمول تحفہ اور بڑے پیمانے پر بزدلانہ حرکت کی غیر روایتی مثال ہے۔ مغربی جمہوری اور معدن علمی کہلانے والے ممالک سے لئے گئے مالی، سیاسی، سفارتی، افرادی اور بارودی امداد کے ذریعے چالیس ہزار سے زیادہ بے گناہوں کو بارود کی نذر کرنے اور غزہ کو ملیا میٹ کرنے والی طاقتوں کو نہ انسانی حقوق یاد آئے، نہ نام نہاد بین الاقومی قوانین۔ نہ اقوام متحدہ کی سنی گئی، نہ عالمی عدالت انصاف کی۔ قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی بے گھر اور دربدر ہیں۔ یتیم بچوں کی تعداد کتنی ہے، بیواوں کی تعداد کتنی ہے، اللہ ہی جانتا ہے۔ زخمیوں اور بیماروں کا سوائے خدا کے کوئی آسرا نہیں۔
فلسطینیوں کے پاس سوائے بد دعا کے کچھ نہیں کہ وہ دشمن صیہونیوں کو دے سکیں، جبکہ دانشوروں کی دنیا، متمدن دنیا، خاص طور پر اسلامی ممالک کے باسی سوائے تماشابینی کے کچھ نہیں کرر رہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی میں عام شہری اور طلبہ ان مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لیکن اسلامی دنیا اور امت کے چمپیئن ممالک میں سے چند ایک ہی نظر آرہے ہیں، جو اس دراندازی پر سراپا احتجاج ہیں یا ان کے مقابلے میں اپنے وسائل استعمال کر رہے۔ لبنان، شام، یمن اگر کچھ کر رہے ہیں تو اندھے بھی جانتے ہیں کہ ان کی پشت پر کون ہے، جبکہ پاکستان جیسے ملک میں صیہونیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال ہوتی رہی، پریس میں بلیک آوٹ کا سا سماں ہے، ایوانوں میں کھل کر بات تک نہیں ہوتی۔ حکومتی سطح پر روایتی مذمت پر اکتفا کیا جا رہا ہوتا ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے لے کر ابتک تقریباً پورا سال ہوگیا ہے۔ اس دوران لبنان کی مقاومت نے بھرپور کوشش کی کہ صیہونیوں کو اپنی جانب انگیج رکھا جائے، تاکہ غزہ میں بربریت کم سے کم ہو، نتیجتاً کئی اہم رہنماوں سمیت دو سو کے قریب مجاہد شہید ہوگئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ صیہونی دفاع کا نظام اس قابل نہیں کہ اپنے قابض آبادکاروں کو سکون سے رہنے کی ضمانت مل دے سکے۔ کئی مرتبہ دنیا کی ناجائز صیہونی ریاست کی دفاعی طاقت اور انٹیلی جینس کا پول کھل گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں آبادکاروں نے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے نہ صرف سرحد کے اطراف مقبوضہ فلسطینی علاقوں بلکہ خود صیہونی ریاست سے رفو چکر ہونے میں عافیت جانی۔
لیکن منافق مغربی فری لانس قصیدہ خوان الٹا مذاق اڑانے میں لگے رہے، چاہے ایران کی طرف سے دفاعی حملہ ہو یا لبنانی مقاومت کا۔ اپنے نقصانات کے باوجود لبنانی مقاومت نے حملوں کے سلسلے میں مسلسل تیزی لائی، لیکن صیہونی لبنان پر زمینی حملے کی جرات نہ کرسکے۔ اب یہ وقت بھی آیا کہ غزہ سے زیادہ لبنانی بارڈر پر صیہونی درندوں اور دفاعی طاقت کو نظر رکھنا پڑ رہا ہے کہ کہیں سیٹلرز سے خالی علاقوں پر لبنانی مقاومت قبضہ نہ کرلے۔ اسوقت لبنان سرحد کے اطراف کا پورا علاقہ صیہونی ناجائز آبادکاروں سے خالی ہوچکا ہے، صیہونی فوجی یا تو بینکروں میں چھپے ہوئے ہیں، تبھی نیتن یاہو اور اس کا آقا غیر انسانی حرکتوں پر مجبور نظر آرہا ہے۔
گذشتہ روز انتہائی چھوٹے سائز کے کمیونیکیشن ٹول "پیجر" یا "بیپر" کے ذریعے لبنان میں دو بچوں سمیت درجن کے قریب عام شہریوں کے شہید ہونے کی خبر پوری دنیا کی میڈیا پر شہہ سرخی بنی۔ ان خبروں کے مطابق اس مکارانہ صیہونی سازش میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 3 ہزار کے قریب ہے، جس میں لبنانی مقاومت اور ایرانی سفارت کے بعض اہم افراد بھی شامل ہیں۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے بھی شدید چوٹوں کا اعتراف کیا اور اب نیویارک ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ محدود پیمانے پر صرف ٹیکسٹ مسجز کے ذریعے پیغام رسانی کیلئے پیجرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔
خبروں کے مطابق لبنانی مقاومت نے سال کے شروع میں ہی 5 ہزار پیجرز منگوائے تھے، جس پر تائیوانی کمپنی اپولو کے لوگو پرنٹ ہیں، جبکہ اپولو کمپنی کی طرف سے تازہ بیان ہے کہ چونکہ ہنگری کے فرم BAC کے پاس اپولو کمپنی کا لائسنس موجود ہے، اس کمپنی نے لبنان میں فروخت ہوئے پیجرز بنائے۔ بی بی سی کے مطابق 20 گرام دھماکہ خیز مواد ہر بیپر میں ڈالا گیا تھا، جبکہ بعض دوسری نیوز میں 3 گرام کی بات کی گئی ہے۔ موبائل فون کی بجائے پیجرز کے استعمال کی ایک اہم وجہ یہی ہے کہ دشمن عام موبائل فون کے سگنلز اور لوکیشن آسانی کیساتھ ٹریس کرسکتے تھے، اس سے بچنے کا بہتر طریقہ پیجرز کا استعمال ہے۔ دوسرا اس کے ذریعے صرف ایک مخصوص سرکل اور محدود ڈیوائس رکھنے والے ہی آپس میں پیغام رسانی کرسکتے ہیں۔ یعنی دشمن نہ صرف لوکیشن ٹریس نہیں کرسکتے بلکہ اہم آپریشن اور تیکنیک سے بھی فوری مطلع نہیں ہوسکتا۔
اسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ مقاومت کے انتہائی اہم لوگوں کے پاس یہ ڈیوائس موجود تھی۔ اس کا ثبوت اس خبر سے بھی ملتا ہے کہ حالیہ شیطانی حرکت کے زد میں آنے والوں میں مقاومت کے اہم رہنماء اور ایرانی سفارت کے افراد بھی شامل ہیں۔ گو کہ مغربی روشن خیال اور متمدن طاقتوں کی ایماء پر ایسی حرکت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ اس سے قبل ایرانی نیوکلئیر سائنسدانوں کی شہادت، نیوکلئیر ری ایکٹر پر سائبر اٹیک سمیت کئی فلسطینی رہنماوں کو اس سے مشابہ اور غیر روایتی آلات کے استعمال میں ٹارگٹ بنا چکے ہیں، لیکن اپنی سبکی اور نا اہلی کا بدلہ جس بڑی تعداد میں غیر روایتی اور دھوکہ دہی کے ذریعے لینے کی کوشش کی گئی، یہ ان کی اصلیت سمجھنے کیلئے بہت اہم ہے۔ سائبر اور ٹیکنیکل ڈیوائس کے ذریعے اس طرح کی حرکت پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
یعنی اب الیکٹرانک ڈویوائسز کے استعمال میں محتاط ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ موبائل فون سے پہلے کے زمانے کے پیجرز کے ذریعے ایسی حرکت کی گئی تو موبائل فون کے ذریعے نام نہاد ترقی یافتہ قوتیں کیا کچھ نہیں کرسکتی۔ ایٹم بم سے لیکر ڈرون تک، سائنسی ترقی اور علم کی فراوانی کو انہوں نے انسان کشی کیلئے ہی استعمال میں لایا، جس کا عشر عشیر بھی ماضی کی جنگوں میں نہیں ملتا، جبکہ ماضی میں انسانوں کو کم علم، قدیمی، تہذیب و تمدن سے عادی سمجھا جاتا رہا۔ لیکن آج کی علمی ترقی، مہذب اور انسان دوستی کے یہ ثبوت ہیں۔ یہ ہر چیز کو اپنی چودھراہٹ کیلئے انسان کشی میں استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے، کیونکہ انسانیت اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ صیہونیوں میں ہے، نہ ان کو طاقتور بنانے والی روشن خیال مغربی طاقتوں میں، بالکل اسی طرح ان کی فری لانس قصیدہ خوانی کرنے والوں کی حالت بھی ویسی ہی ہے۔