0
Sunday 15 Sep 2024 07:39

یوکرین شکاری یا شکار

یوکرین شکاری یا شکار
تحریر: امیر حمزہ نژاد

یوکرین مغرب کی براہ راست مداخلت کے بغیر روس کے خلاف کارروائی کا آلہ کار بن چکا ہے اور امریکہ اور انگلینڈ اس صورتحال سے یقیناً ناخوش دکھائی نہیں دیتے۔ یوکرین کی جنگ نے بین الاقوامی سطح پر مختلف واقعات کو جنم دیا ہے۔ زنگزور راہداری کا واقعہ قفقاز کی اس جنگ کے اہم شاخسانوں میں سے ایک ہے، جس نے اب ایران سمیت کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ مغربی ممالک کے زیر انتظام ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی اس جنگ سے روس کو اپنے مقاصد کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یوکرین بھی ایک جنگ زدہ ملک بن چکا ہے، جو اپنے دفاع کے لیے کچھ مغربی ہتھیاروں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہ حالات یوکرین حتیٰ کہ روس کے لیے بھی یقیناً سازگار نہیں ہیں، لیکن اس دوران مغربی ممالک اس کے تسلسل سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے یا نہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین میں نیٹو کا اسٹریٹجک منصوبہ بحران کا حل نہیں ہے! دوسری جانب اس خطرے کو پسپا کرنے کے لیے روس نے اپنے ایجنڈے میں قلیل مدتی حکمت عملی کو شامل کیا ہے اور چونکہ ان ہتھکنڈوں کا مقصد آگے کے مسائل کو حل کرنا ہے، اس لیے یہ ملک طویل مدت میں اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکے گا۔ روس پر کی جانے والی تنقیدوں میں سے ایک اسٹریٹجک کارروائیوں کے بجائے قلیل مدتی حکمت عملی ہے، جس سے یوکرین کی جنگ میں شدت آئی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ جب نیٹو یوکرین میں پہنچا تو روس ایک ناگزیر صورتحال سے دوچار ہوا اور اگر وہ حملہ نہ کرتا تو یوکرین نیٹو کا رکن بن چکا ہوتا۔ اس نے حملہ کیا تو اس پر پیسہ خرچ ہونا یقینی تھا۔ مغرب کو اس کے خلاف متحرک کیا گیا۔ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے روسیوں کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کا ایک بہانہ فراہم کیا اور اس مسئلے کے جاری رہنے سے یقینی طور پر اس ملک پر مزید دباؤ پڑے گا اور مغرب کی پالیسی یہ ہے کہ روس پر دباؤ ڈالنا جاری رکھا جائے۔ یوکرین کے بارے میں مغرب کا نقطہ نظر اب تک ہڈیوں پر پٹی کرنے کی پالیسی رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحران مکمل طور پر حل نہ ہونے پائے، کیوںکہ، یہ مسئلہ تنازعات کو جاری رکھتے ہوئے اس علاقے میں مغرب کی مداخلت کے لیے مزید بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے۔

بھارت اس میدان میں ثالث کے طور پر داخل ہوا ہے، لیکن ایسا نہیں لگتا کہ مغرب کے عدم تعاون اور روس کے یوکرین کے بعض علاقوں پر مسلسل قبضے کی وجہ سے یہ جنگ جلد ہی جنگ بندی اور امن کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔ یوکرین کی جنگ کو عوامی رائے عامہ کے میدان میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ جنگ ایک تسلی بخش رجحان نہیں ہے، خاص طور پر یوکرین میں، جو مغرب اور روس کے درمیان معطل ہے۔ یوکرین کے عوام اس احساس کے ساتھ کہ وہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے مفادات کا شکار ہوچکے ہیں، اپنے عدم اطمینان کا زیادہ اظہار کرتے ہیں اور یوکرین سے ریلیز ہونے والی بعض فلموں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ نوجوان اس جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے ساتھ جنگ ​​میں سپورٹ فورس کے لحاظ سے یوکرین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

یوکرین کی جنگ نے مغرب کو ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف بہانے بنانے کی بنیاد فراہم کی ہے۔ یوکرین کو ایران کے ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے مغربی میڈیا کی خبریں اور نفسیاتی کارروائیاں بھی اس ایران مخالف پالیسی اور ایران کے خلاف بعض پابندیوں میں شدت لانے کا ایک پلیٹ فارم بن گئی ہیں۔ ایرانی حکام کئی بار سرکاری طور پر ان الزامات کی تردید کرچکے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مغرب نے ایران کے خلاف اپنی نئی پابندیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس مسئلے کی نفسیاتی فضا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

"ولادیمیر زیلینسکی" جیسے شخص کی موجودگی اور مغرب کی طرف اس کا رجحان یوکرین کی سیاست کا توازن  بگاڑنے کا باعث بنا ہے اور اس سے روس کے یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے اور اس حساس فوجی ادارے کی سرحدوں کو منتقل کرنے کا خوف پیدا ہوا اور اس سے یوکرین میں جنگ چھڑ گئی۔ بہرحال یوکرین کو ماتم اور خوشی کی مرغی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، جسے دونوں صورتوں میں ذبح ہونا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی مرضی یہ ہے کہ روس کو یوکرین میں جنگ سے کنٹرول کیا جائے اور دوسری طرف یوکرین جس نے خود کو مغربی ممالک کا اتحادی ظاہر کیا ہے، اس میدان میں فائدہ اٹھانے کے بجائے ایک شکار اور آلہ کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1160108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش