0
Tuesday 17 Sep 2024 17:09

خیبر پختونخوا میں امن کون قائم کرے گا؟

خیبر پختونخوا میں امن کون قائم کرے گا؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورتحال عرصہ دراز سے ابتر چلی آرہی ہے، بعض حلقے اس صورتحال کو پڑوسی ملک افغانستان کیساتھ تعلقات میں کشیدگی جبکہ بعض حلقے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سے جوڑتے ہیں۔ گذشتہ دنوں صوبہ میں اس وقت غیر معمولی حالات دیکھنے کو ملے کہ جب ’’عوام کے محافظ‘‘ یعنی پولیس اہلکار احتجاجی دھرنوں پر بیٹھ گئے، یہ سلسلہ جنوبی ضلع لکی مروت سے شروع ہوا، وہاں پولیس اہلکاروں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے علاقہ سے پاک فوج کے اہلکار واپس چلے جائیں، سکیورٹی ہمارے حوالے کی جائے۔ اس احتجاج میں پولیس کے ساتھ تاجر برادری بھی شامل ہوگئی اور عوام نے بھی پولیس کے مطالبات کا بھرپور ساتھ دیا، پورے ضلع کے کاروباری مراکز بند ہوکر رہ گئے۔ مظاہرین نے یہ دھرنا چھ دن تک جاری رکھا، جس کے باعث مین پشاور، کراچی انڈس ہائی وے ہر قسم کی ٹریفک کی روانی بند رہی۔

پولیس اہلکاروں کے احتجاج کا یہ سلسلہ پڑوسی ضلع بنوں تک بھی پہنچ گیا اور پھر بنوں میں بھی پولیس اہلکار کے قتل کے خلاف اہلکاروں نے پولیس لائن چوک پر شہید اہلکار کی میت رکھ کر دھرنا دے دیا، اس احتجاج میں تاجر برادری اور عام شہری بھی شامل ہوگئے۔ علاوہ ازیں دھرنوں کی یہ لہر قبائلی ضلع باجوڑ پہنچی، جہاں پولیس نے ڈیوٹیاں دینے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا۔ دھرنے میں بیٹھے اہل کاروں کا کہنا تھا کہ مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج وسیع کردیں گے، جب تک اداروں کے اہلکار ہمارے ساتھ پولیو ڈیوٹی نہیں کریں گے، تب تک پولیو ڈیوٹی سے بائیکاٹ ہوگا۔ باجوڑ دھرنے جاری رہنے والے اس دھرنے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی شریک تھے۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے احتجاج کے اس سلسلے پر وفاقی حکومت بھی حرکت میں آئی اور آئی جی پولیس کے پی کو معاملات سلجھانے کا ٹاسک دیا گیا۔

اس موقع پر کے پی پولیس نے موقف اپنایا کہ بعض شرپسند عناصر پولیس اور فورسز کے درمیان اختلافات پیدا کر رہے ہیں، عوام، پولیس اور عسکری ادارے دہشتگردی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے دو دہائیوں سے برسرپیکار ہیں۔ خیبر پختو نخوا پولیس کے 2000 سے زائد افسران و جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس میں کانسٹیبل سے لے کر ایڈیشنل آئی جی پی تک شامل ہیں۔ اسی جذبے کے ساتھ یہ فورس اب بھی دہشت گردی سے نبردآزما ہے اور ضلعی انتظامیہ و دیگر فورسز کے ساتھ ملکر دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنا رہی ہیں۔ عوام، پولیس اور فوج کے وجہ سے صوبے میں امن و امان قائم ہوا، مسلح افواج نے ہر مشکل مرحلے پر پولیس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ٹریننگ کے مرحلے سے لے کر مشترکہ چیک پوسٹ کے قیام، مشترکہ سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشنز، IBO’s اورٹیکنیکل معاونت تک ہر میدان میں عسکری ادارے خیبر پختونخوا پولیس کے شانہ بشانہ رہے ہیں اور پاک فوج نے ہمیشہ ہر قسم کا تعاون فراہم کیا ہے۔

بالآخر تیرہ ستمبر کو لکی مروت میں قومی جرگہ کے مشران کی کوششوں سے پولیس اور آرمی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے اور ان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا، جس کے بعد دھرنا ختم کرتے ہوئے سڑکیں کھول دی گئیں۔ معاہدے کے نکات کے تحت آرمی کو ضلع لکی مروت سے نکلنے کیلئے 6 دن کی ڈیڈ لائن دی گئی اور اگر آرمی 6 دن میں ضلع سے نہ نکلی تو پولیس دوبارہ احتجاج کرے گی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ آرمی کو ضلع سے نکالنے کی ذمہ داری آر پی او بنوں عمران شاہد نے لی۔ معاہدے کے تحت پولیس کو بکتر بند گاڑیاں دی جائیں گی اور دھرنے میں شامل پولیس اور عوام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ آرمی پولیس کے اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔ معاہدہ طے پانے کے بعد دھرنے پر بیٹھے پولیس اہلکاروں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔ اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حالات کسی طور پر بھی تسلی بخش نہیں، وہ ادارہ جس کی ذمہ داری عوام کا تحٖفظ ہے، وہ خود احتجاج پر ہو تو امن کون قائم کرے گا۔؟

یاد رہے کہ وفاقی حکومت اور پاک فوج کا ارادہ تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن شروع کیا جائے، تاہم پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اس ممکنہ فوجی آپریشن کی مخالفت کی۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال کسی طور پر تسلی بخش نہیں، جنوبی اضلاع خاص طور پر بے امنی اور دہشتگردی کا شکار ہیںِ، باجوڑ اور کرم میں مسائل ہیں، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں آئے روز افسوسناک واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایسے میں سکیورٹی پر مامور دو اداروں کے مابین باہمی مسائل کا جنم لینا کسی طور پر کوئی نیک شگون نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی سیاسی لڑائی کو بھرپور انداز میں لڑنے میں مصروف ہیں، گورنر اور وزیراعلیٰ صوبہ کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف روز ’’لفظی گولہ باری‘‘ میں مصروف رہتے ہیں۔ صوبہ کے عوام امن مانگ رہے ہیں، تاہم کوئی ان کا پرسان حال نہیں، ضلع کرم کے عمائدین و نوجوان لگ بھگ ایک ماہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں کہ ’’ہمیں صرف امن چاہیئے۔‘‘ لیکن کوئی ان کی دادرسی کو تیار نہیں۔ یہاں سوال صرف ایک ہی ہے کہ ’’خیبر پختونخوا میں امن کون قائم کرے گا۔؟‘‘
خبر کا کوڈ : 1159546
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش