رپورٹ: جاوید عباس رضوی
حالیہ دنوں بھارت کی مختلف ریاستوں بالخصوص بی جے پی کی قیادت والی سرکاروں میں مسلمانوں کی املاک پر چلنے والے غیرقانونی بلڈوزر کے خلاف داخل متعدد عرضداشتوں پر سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت ہوئی، جس کے دوران عدالت نے تمام ریاستوں کے لئے رہنمایانہ اصول مرتب کرنے کا شارہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس بی آرگوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن نے اس تعلق سے 17 ستمبر کو سماعت کئے جانے کا حکم دیا۔ عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ اگلی سماعت پر گائڈ لائنس کے تعلق سے مشورے دیں تاکہ بلڈوزر کارروائی پر قابو پایا جاسکے۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بلڈوزر کارروائی پر قدغن لگانے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے تمام ریاستوں کے لئے گائیڈ لائنس مرتب کئے جانے اور عدالت کے اس تبصرہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کئی ریاستوں میں جاری بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ملزم ہے تو اس کے گھر کو کیسے گرایا جاسکتا ہے، اگر وہ مجرم بھی ہو تو بھی اس کے جائیداد کو منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت سے یہی گزارش کی تھی کہ بلڈوزر کسی کی بھی املاک پر نہیں چلنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گائیڈ لائنس مرتب ہوجانے کے بعد ریاستی حکومتیں اس کو لاگو کرنے کے لئے قانوناً پابند ہوں گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ حتمی فیصلہ بھی مظلومین کے حق میں ہوگا۔
سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کی جانب سے جمعیت علماء ہند کو ایک بار پھر نشانہ بنائے جانے پر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ مظلوموں کو انصاف دلانا اور انسانیت کی بنیاد پر بلا تفریق خدمت کرنا ہمارا مشن ہے اور جمعیت علماء ہند ان تمام لوگوں کے لئے انصاف چاہتی ہے جن کے ساتھ بلڈوزر کارروائی انجام دی گئی ہے اور جن علاقوں میں بندوق کی نوک پر انہدامی کارروائی ہوئی ہے، وہاں کے عوام ڈر سے سہمے ہوئے ہیں اور متاثرین اور انصاف پسند عوام کی درخواست پر ہی جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور جمعیت علماء نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر رکھی ہے، جسے عدالت نے سماعت کے لئے منظور کر لیا ہے، لہذا بار بار جمعیت علماء کو نشانہ بنانا سالسٹر جنرل جیسے عہدہ کی توہین ہے۔ دوران سماعت سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے جمعیت علماء ہند کی عرضداشت ڈائری نمبر 11955/2022 میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔
جمعیت علماء ہند کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینیئر ایڈووکیٹ سی یوسنگھ نے عدالت کو بتایا کہ اب تک صرف اترپردیش حکومت نے حلف نامہ داخل کیا ہے، جس کا حوالہ سالیسٹر جنرل آف انڈیا کر رہے تھے۔ سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے کہا کہ صرف اس وجہ سے کوئی بھی املاک کا انہدام نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مقدمہ میں ملزم ہے، جس پر جسٹس گوئی نے کہا کہ وہ سالیسٹر جنرل کے اس بیان کو ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں جس پر سالسٹر جنرل نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں، لیکن عدالت ان کے دلائل کی مکمل سماعت کے بعد ہی ان کا بیان ریکارڈ کرائے۔ دوران سماعت آج پھر سالسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے جمعیت علماء ہند کو نشانہ بناتے ہوئے عدالت کو کہا کہ جن لوگوں کے مکانات پر بلڈوزر چلا ہے، آج وہ عدالت کے سامنے نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند و دیگر نے پٹیشن داخل کی ہے، جس پرسینیئر ایڈووکیٹ سی یوسنگھ نے عدالت کو بتایا کہ جمعیت علماء ہند کی پٹیشن کے ساتھ راجستھان کے ارشد خان اور مدھیہ پردیش کے محمد حسین نے تازہ عرضداشتیں داخل کی ہیں، جن کے املاک پر غیرقانونی بلڈوزر چلایا گیا ہے۔ سی یوسنگھ نے عدالت کو مزید بتایا کہ بلڈوزر کارروائی پر قدغن لگانے کے لئے عدالت کا تمام ریاستوں کے لئے گائڈ لائنس مرتب کرنا چاہیئے۔
عدالت نے تمام فریقین بشمول ریاستی حکومت کو حکم دیا کہ 13 ستمبر تک اپنے مشورے جمع کر دیں۔ عدالت اس مقدمہ کی اگلی سماعت 17 ستمبر کو 2 بجے کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ سینیئر ایڈووکیٹ سی یو سنگھ نے عدالت کومزید بتایا کہ بلڈوزرکی کارروائی پہلے اترپردیش میں شروع ہوئی، جومختلف ریاستوں میں پھیل چکی ہے، جس پر روک لگانا ضروری ہے۔ سینیئر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایک مخصوص طبقہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے، قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیرپوری کی جامع مسجد کے اطراف میں سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد بھی دیڑھ گھنٹہ تک دکانوں اور مکانوں کا انہدام ہوتا رہا، اس درمیان متاثرین پولس اور ایم سی ڈی افسران سے مسلسل یہ کہتے رہے کہ ٹی وی چینلوں پر خبر آرہی ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر فوری روک لگادی ہے۔ لہٰذا انہدامی کارروائی روکی جائے، مگر افسوس کہ اس مذموم سلسلہ کو انہوں نے نہیں روکا اور انہدامی کارروائی کو بدستور جاری رکھا، جواب تک چل رہی ہے۔ دوران سماعت سالسٹر جنرل آف انڈیا اور سینیئر ایڈووکیٹ دشینت دوے کے درمیان گرما گرم بحث ہوگئی، جب سالسٹر نے یہ کہا کہ سینیئر ایڈووکیٹ میڈیا کے لئے اس معاملے کو حساس بنانا چاہتے ہیں۔
عدالت نے بیچ بچاؤ کر کے دونوں وکلاء کو حکم دیا کہ وہ گائڈ لائنس کے تعلق سے اپنے مشورے عدالت میں جمع کرائیں۔ دوران سماعت دو رکنی بینچ نے کہا کہ کسی ملزم کو کیا سزا یافتہ شخص کی املاک پر بھی بلڈوزر نہیں چلایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی شروع کرنے سے قبل قانونی کارروائی پوری کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ 2022ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے جمعیت علماء ہند سمیت دیگر فریق کی درخواستوں پر دہلی کے جہانگیرپوری، اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اتراکھنڈ ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر چلنے والے غیرقانونی بلڈوزر پر سخت نوٹس لیتے ہوئے مودی حکومت سمیت ایسے تمام صوبوں سے جواب طلب کیا تھا، جہاں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا، جس کے بعد پھر ایک بار یہ معاملہ سرخیوں میں آگیا۔ گزشتہ ہفتہ وکلاء نے سپریم کورٹ سے اس معاملے کی جلد از جلد سماعت کئے جانے کی گزارش کی تھی، جس کے بعد معاملہ سماعت کے لئے عدالت میں پیش ہوا۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی سمیت مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے کے خلاف جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کر رکھی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جمعیت علماء ہند کے رہنماؤں مولانا محمود مدنی اور مولانا ارشد مدنی نے حال ہی میں یوپی، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہوئے حادثات کا حوالہ دیتے ہوئے بلڈوزر کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ اس کے علاوہ کئی اور تنظیموں نے بھی اس سے متعلق عرضی داخل کی تھی۔ جمعیت علماء ہند نے اپنی اس عرضی میں اقلیتی طبقے کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ عرضی میں ملزمین کے گھروں پر حکومتوں کے ذریعہ بلڈوزر چلانے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سخت فیصلے کا مولانا محمود اسعد مدنی اور مولانا محمود مدنی دونوں نے خیرمقدم کرتے ہوئے لڑائی جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ جمعیت علماء ہند کے دونوں گروپ متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے پابند عہد ہیں اور بلڈوزر سسٹم کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت میں ہوئی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس معاملے کے اہم فریق صدر جمعیت علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ بلڈوزر سے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ انہووں نے کہا کہ جس طرح سے بلڈوزر کی کارروائی کی جاتی ہے، اس سے ایک پوری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے، کسی ملزم کا گھر گرنے سے صرف اس کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لئے جمعیت علماء ہند ہر ممکن جد و جہد کرے گی اور بالکل خاموش نہیں بیٹھے گی۔
سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت کے دوران سالسٹر جنرل نے دہلی کے جہانگیر پوری میں ہوئی کارروائی سے متعلق دلیل دی۔ اس دوران عدالت نے ان سے سوال کیا کہ اگر کوئی ملزم ہے، محض اس بنیاد پر بلڈوزر کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا کہ یہ قانون کے خلاف ہے اور ہم اسے لے کر گائیڈ لائن جاری کریں گے، ساتھ ہی تمام ریاستوں کو نوٹس بھی جاری کریں گے۔ سالسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ صرف میونسپل قانون میں ہی بلڈوزر کارروائی کا التزام ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کیا مجرمانہ قانون کے تحت کسی ملزم کے خلاف بلڈوزر کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس پر جواب دینے کے لئے سالسٹر جنرل نے عدالت سے وقت مانگا، جس کے بعد بینچ نے کہا کہ وہ معاملے کی سماعت آئندہ پیر کو کریں گے۔ وہیں جمعیت علماء ہند کی طرف پیش ہوئے دشینت دوے نے سپریم کورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بلڈوزر کارروائی کے ذریعہ صرف اقلیتی طبقے کے لوگوں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے، لہٰذا ان معاملوں میں فوری روک لگانے کی ضرورت ہے۔ عرضی میں مرکزی حکومت اور ریاستوں کو فریق بنایا گیا اور کہا گیا ہے کہ ملزمین کے خلاف واجب قانونی کارروائی کے بجائے ان کے گھروں کو بلڈوزر سے منہدم کیا جا رہا ہے۔ یہ پوری طرح سے غیرقانونی اور من مانی پر مبنی رویہ ہے، جسے انجام دے کر اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔