1
Monday 2 Sep 2024 14:23

اسلامی مزاحمت کی فتح قریب ہے

اسلامی مزاحمت کی فتح قریب ہے
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)
 
حزب اللہ لبنان کی جانب سے گذشتہ ہفتے اربعین گرینڈ آپریشن کے اثرات دھیرے دھیرے ظاہر ہو رہے ہیں۔ وہ دو بڑی فوجی تبدیلیاں کون سی ہیں جو آئندہ چند دنوں یا ہفتوں میں رونما ہونے والی ہیں اور خطے کی مساواتوں کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں موڑ دیں گی؟ ففتھ کالم کی سازشوں کا منہ توڑ جواب کیا تھا؟ گذشتہ دنوں میں دو اہم فوجی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے ذریعے حزب اللہ لبنان کے اربعین آپریشن کے نتائج مزید واضح ہو جائیں گے۔ حزب اللہ لبنان نے گذشتہ ہفتے اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر شہید فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کا بدلہ لیتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم کے اہم جاسوسی مراکز کو سینکڑوں میزائلوں اور دسیوں خودکش ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا تھا۔ یہ حملے تل ابیب کے علاقے گلیلوت میں واقع موساد، شاباک اور امان کے خفیہ جاسوسی ٹھکانوں پر انجام پائے تھے۔
 
ان میں سے پہلی تبدیلی کچھ اسرائیلی تجزیہ کاروں اور جرنیلوں کی طرف سے صیہونی اور مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ تجزیات میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اربعین آپریشن کے دوران گلیلوت میں واقع جاسوسی مراکز پر حزب اللہ لبنان کے حملے کامیاب رہے ہیں اور حزب اللہ لبنان مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس اعتراف نے اس سینسرشپ کو توڑ دیا ہے جو صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم پر صیہونی فوج نے لاگو کر رکھا تھا۔ دوسری اہم فوجی تبدیلی شاید پہلی بار اسلامک جہاد کی جانب سے گولان ہائٹس میں اپنے چار مجاہدین کی شہادت کے بارے میں سرکاری بیانیہ جاری کرنا ہے۔ اس بیانیے میں ان مجاہدین کی شہادت کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جبکہ اس آپریشن کا ذکر بھی نہیں کیا گیا جس میں یہ مجاہدین شہید ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ یہ مجاہدین شام کے علاقے میں شہید ہوئے ہیں یا اس مقبوضہ علاقے میں شہید ہوئے ہیں جو اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔
 
اربعین آپریشن حزب اللہ لبنان کی جانب سے شہید فواد شکر کی ٹارگٹ کلنگ کے بدلے میں انتقامی کاروائی کے طور پر انجام پایا ہے۔ شہید فواد شکر سید حسن نصراللہ کا دایاں بازو تصور کیا جاتا تھا۔ حزب اللہ لبنان نے یہ انتقامی کاروائی بہترین منصوبہ بندی سے اور طاقتور انداز میں انجام دی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس پر کاری ضرب لگی ہے اور اس سے حزب اللہ لبنان کی انٹیلی جنس میدان میں برتری ظاہر ہوتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے فوجی کاروائی کی تیاری اور انجام دینے کے انداز نے نئی فوجی تھیوری جنم دی ہے جو مستقبل میں دنیا کے تمام ملٹری کالجز میں پڑھائی جائے گی۔ ہم صرف دشمن کے غافل ہونے کی بات نہیں کر رہے بلکہ اس انتقامی کاروائی کی منصوبہ بندی کرنے والے کی اعلی درجہ ذہانت اور مہارت کی بات بھی کر رہے ہیں۔
 
حزب اللہ لبنان کی اس انتقامی کاروائی میں پہلے دو مرحلوں میں 320 کیٹیوشا میزائل فائر کئے گئے جن کا مقصد صیہونی رژیم کے فضائی دفاعی نظام فولادی گنبد کو ناکارہ بنانا تھا۔ ان کیٹیوشا میزائلوں کے مقابلے میں اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کے تمام میزائل فائر ہو گئے اور اس کے بعد حزب اللہ لبنان نے خودکش ڈرون طیارے داغ دیے جو کامیابی سے مطلوبہ اہداف یعنی گلیلوت میں واقع اہم اسرائیلی جاسوسی مراکز پر جا گرے۔ یوں یہ انتقامی کاروائی مکمل کامیابی سے انجام پائی۔ اس انتقامی کاروائی میں پوشیدہ حزب اللہ لبنان کا پیغام بہت مستحکم اور واضح ہے۔ وہ پیغام یہ ہے کہ ہر جارحیت کا جواب ان جاسوسی مراکز کو نشانہ بنا کر دیا جائے گا جہاں اس جارحیت کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور انتقامی کاروائی میں عام شہریوں یا سویلین مراکز کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ حزب اللہ لبنان نے غزہ جنگ کے آغاز سے ہی روزانہ کی بنیاد پر صیہونی ٹھکانوں اور فوجیوں کو نشانہ بنا رکھا ہے اور ہر روز کئی کاروائیاں انجام پاتی ہیں۔
 
حزب اللہ لبنان کے اربعین آپریشن کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات بہت جلد منظرعام پر آ جائیں گے اور دنیا والے اسرائیلی جاسوسی مراکز کی تباہی اور ہلاک ہونے والے جاسوسی افسران سے آگاہ ہو جائیں گے۔ اس آپریشن میں صیہونی فوج کی یونٹ 8200 کے ہیڈکوارٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کا کام سائبر وار ہے اور وہ دنیا بھر میں زہریلا پروپیگنڈہ اور میڈیا وار میں مصروف ہے۔ اسی طرح مشرق وسطی میں سرگرم اسرائیلی جاسوس بھی اسی مرکز سے وابستہ ہیں اور انہیں یہیں سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے جنوبی لبنان پر جارحیت کا تسلسل اور حزب اللہ کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ اس جنون کو ظاہر کرتا ہے جس کا شکار صیہونی رژیم اربعین آپریشن کے بعد ہوئی ہے۔ یہ جنون اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اربعین آپریشن نے صیہونی رژیم پر کاری ضرب لگائی ہے لہذا عرب دنیا میں ففتھ کالم کی جانب سے اربعین آپریشن کے بے سود ہونے کا پراپیگنڈہ بھی جھوٹا ہے۔
 
دوسری اہم فوجی تبدیلی یعنی گولان ہائٹس میں چار مجاہدین کی شہادت بھی بہت اہم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی مزاحمت نے سرکاری طور پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف گولان ہائٹس کا محاذ بھی کھول دیا ہے۔ گذشتہ پانچ برس میں صیہونی رژیم نے شام پر 400 سے زیادہ فضائی حملے انجام دیے جن کا واحد مقصد اسلامی مزاحمت کی کمر توڑنا اور شام میں اس کی طاقت ختم کرنا تھا لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام حملے بے سود ثابت ہوئے ہیں اور اسلامی مزاحمتی بلاک شام میں پوری طاقت سے سرگرم عمل ہے۔ خداوند متعال حالات تبدیل کرنے والا ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور غزہ، لبنان، یمن اور شام میں دشمن کو سرپرائز دینے میں مصروف ہیں۔ مغربی کنارہ بھی دیگر محاذوں میں شامل ہو چکا ہے اور شاید صیہونیوں کے قریب ہونے کے لحاظ سے اہم ترین محاذ تصور کیا جائے۔
 
خبر کا کوڈ : 1157615
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش