0
Sunday 1 Sep 2024 21:03

جذبہ یا ٹیکنالوجی؟

جذبہ یا ٹیکنالوجی؟
تحریر: سید تنویر حیدر

نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور تھا، میں ایک مرتبہ امریکہ کے ایک معروف ٹی وی چینل "سی این این" پر ایک مباحثہ دیکھ رہا تھا۔ اس مباحثے کا موضوع "کیا جنگ لڑنے کے لیے جذبہ زیادہ کارآمد ہے یا ٹیکنالوجی" تھا۔ اس گفتگو میں کچھ یورپین اور کچھ مسلم تجزیہ کار شامل تھے۔ مسلم ماہرین کے نکتہ نظر کے مطابق جنگ لڑنے کے لیے جذبہ زیادہ اہم ہے جب کہ یورپین اور امریکی دانشوروں کے خیال میں ٹیکنالوجی سب سے زیادہ کار آمد ہتھیار ہے۔ اس مباحثے میں ایک مقام پر ایک یورپی تجزیہ کار نے اپنے دلائل دیتے ہوئے مسلم اسکالرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم نے آج ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی کی ہے کیا وہ بغیر جذبے کے کی ہے؟

اس نے مسلم تجزیہ کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اگر ہمارے "Industrial Revolution" یا "صنعتی انقلاب" کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم نے یہ انقلاب برپا کرنے میں کتنی قربانیاں دی ہیں اور یہی وہ انقلاب تھا جس کے سبب ہم نے پوری اسلامی دنیا کو اپنے زیر نگیں رکھا۔ اس اسکالر کی اس بات کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ یورپی دانشور کے اس دعوے کو ہم نے کچھ ہی دنوں کے بعد افغان امریکہ جنگ کے میدان میں حقیقت بنتے ہوئے دیکھا۔ جنگ شروع ہونے سے قبل طالبان نے بہت رجز خوانی کی اور کہا کہ افغانستان امریکہ کے لیے قبرستان ثابت ہوگا۔

طالبان کے روحانی رہنما ملا عمر نے طالبان کی کامیابی کی پیشگی نوید دے دی تھی لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ ٹیکنالوجی سے لیس امریکی طیاروں نے پہلے ہی حملے میں افغانستان کی دفاعی لائن کو توڑ دیا۔ امریکہ نے اپنے اس حملے میں زیادہ تر اپنی خواتین پائلٹس کو استعمال کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ طالبان کے پاس اس طرح کے حملوں سے اپنے دفاع کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ محض نعروں سے جہاز گرائے نہیں جا سکتے۔ 2003ء کی خلیج کی جنگ میں جب امریکہ نے بغداد پر اپنا پہلا میزائل حملہ کیا تو اس کے میزائل پھٹے نہیں۔

لوگوں نے اسے خدائی مدد سمجھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان میزائلوں نے پھٹنا ہی نہیں تھا کیونکہ ان میزائلوں کا مقصد محض عراق کی سیکیورٹی سسٹم کو جام کرنا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے بغداد پر میزائلوں کی جو بارش کی اس نے بغداد کو تہس نہس کردیا۔ طالبان کے افسانوی کردار کی حقیقت بھی اس وقت کھلی جب شمالی اتحاد کی افواج نے زمینی کاروائی شروع کی۔ اس کاروائی کا آغاز انہوں نے مزار شریف پر حملے سے کیا۔ طالبان یہاں سے بغیر مقابلہ کئے پسپا ہوکر کابل پہنچ گئے۔

کہا گیا کہ طالبان اپنی اصل طاقت کا مظاہرہ کابل میں کریں گے۔ یہاں وہ گلی گلی اپنے دشمن سے مقابلہ کریں گے کیونکہ کہ کابل ان کا دارالحکومت ہے لیکن یہاں بھی طالبان ٹھہر نہ سکے اور قندھار پہنچ گئے۔ قندھار کے حوالے سے کہا گیا کہ کیونکہ یہ طالبان کا اسی طرح کا مذہبی مرکز ہے جس طرح ایران کا قم مرکز ہے، لہذا یہاں طالبان قربانی کی ایک تاریخ رقم کریں گے لیکن تاریخ لکھنے سے پہلے یہاں انہوں نے مخالف فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ طالبان کی اس پسپائی کے براہ راست مناظر دنیا بھر کے معروف ٹی وی چینلز نے دکھائے۔

طالبان کی شکست کا یہ سفر آخر " قلعہء جنگی" کی قتل گاہ میں اختتام پذیر ہوا۔ بات چلی تھی جذبے اور ٹیکنالوجی کی۔ آج اسلامی جمہوری ایران کی کامیابی جہاں اس کے ایمانی جذبے کی مرہون منت ہے، وہاں روز افزوں دفاعی ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی ترقی بھی اس کی کامیابی کی ضامن ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج روس جیسی سپر طاقت بھی یوکرائن کو ایرانی میزائلوں اور ڈرونز سے شکست دے رہی ہے۔ حال ہی میں روس نے یوکرائن کے جس f-16 طیارے کو گرایا ہے وہ ایرانی میزائل سے ہی گرایا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1157498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش