0
Saturday 31 Aug 2024 16:38

اردو ادب، جوش اور علامہ اقبال کی ایک نظم کا معمہ

اردو ادب، جوش اور علامہ اقبال کی ایک نظم کا معمہ
تحریر: منظوم ولایتی

کتابیں خاص طور پر سفرنامے اور سوانحِ حیات /  آب بیتیاں پڑھنے کا راقم حد درجہ شائق ہوں۔ اِس ضمن میں جوش ملیح آبادی کی "یادوں کی برات"، قدرت اللہ شہاب کا "شھاب نامہ"، مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی "آپ بیتی" کا پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں مطالعہ کرچکا ہوں۔ دریا آبادی صاحب کی کتاب کا نئی نوجوان نسل سے متعلق یہ شعر اب تک یاد ہے۔

درمیان قصر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن تر ممکن ہوشیار باش


پھر اِس کے اوپر مفتی تقی عثمانی صاحب کے تین سفرناموں کا بھی اضافہ کیجیے جو بالترتیب اِن ناموں سے ہیں: "جہانِ دیدہ"،  "دنیا میرے آگے" اور "سفر در سفر"۔ اول الذکر دو سفرناموں کو پچھلے سال پڑھ چکا تھا جبکہ آخر الذکر کا مطالعہ پچھلے ہفتے ہوا۔ آخری والے سفرنامے میں تقریبا دس کے قریب ممالک کے سفری احوال و مشاہدات کو  مفتی صاحب نے قلمبند کیا ہے۔

راقم حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں ایک دینی طالب علم ہوں۔ مدرسہ عالی امام خمینی رح کے بخش حکمت کے فلسفہ اسلامی کے شعبے میں زیر تحصیل ہوں اور فلسفہ میں ماسٹرز کررہا ہوں۔ دینی علوم کے ساتھ ساتھ اردو ادب میرے دلچسپی کا موضوع ہے۔ اردو کی کتب میں شعری اور نثری ہر دو کتب کو پڑھتا ہوں۔ پچھلے دنوں اربعین حسینی علیہ السلام کے ایام تھے تو زندگی میں پہلی بار جوش ملیح آبادی کی معروف نظم "حسین اور انقلاب" کو پڑھا۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا مرثیہ "حسین اور انقلاب" نے اردو مرثیہ نگاری کو نئے افکار سے آشنا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے ک ایام عزا میں جہاں قدما کے مرثیے کا ذکر آتا ہے، وہیں جوش کا مرثیہ حسین اور انقلاب بھی ضرور پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ جوش و جلال اور جمال کے شاعر ہیں۔ ان کی لفظیات میں جو ولولہ اور آہنگ ہے انہوں نے جوش کے مرثیے کی فکر کو حدت دی اور دراصل کربلا کے المیہ کا احساس ایسا شدید اور جان سوز ہے کہ قاری کی آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں۔

جوش نے کربلا کے واقعات میں اعلیٰ اور افضل اقدار کے حسن پر بھی نظر رکھی ہے اور شخصیتوں کی سراپا نگاری بھی خوب بیان کی ہے۔ جوش کو زبان وبیان پر بھی خوب زبردست حاصل ہے۔ اس لیے مراثی میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ اب اس کا  ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے کہ جس میں ظلم کے خلاف جوش صاحب کیسے للکارتے ہوئے صدا لگاتے ہیں:

دیکھو وہ ختم، ظلم کی حد ہے، بڑھے چلو
اپنا ہی خود یہ وقت مدد ہے، بڑھے چلو

بڑھنے میں عزت اب وجد ہے بڑھے چلو
وہ سامنے حیات ابد ہے، بڑھے چلو

الٹے رہو کچھ اور یونہیں آستین کو
الٹی ہے آستین تو پلٹ دو زمین کو


باقی اینکہ بلاناغہ اخبارات پڑھنا روز کا معمول ہے۔ ٹیکنالوجی نے سب کچھ آسان کردیا ہے۔ آنلائن ای بکس میں درج ذیل روزناموں کو خاص طور پر ان کے اکثر کالمز کو پڑھتا ہوں۔ جنگ، ایکسپریس، نائنٹی ٹو اور دنیا۔ ہندوستان کا روزنامہ "انقلاب" اور روزنامہ "صحافت" بھی بعض اوقات دیکھتا ہوں تاکہ پتہ چلے کہ پاکستان اور ہندوستان کے میڈیا میں کیا فرق ہے اور دونوں ملکوں کے حالات کیسے ہیں۔

میرا ایک اصول ہے کہ جب بھی کسی کتاب کا مطالعہ شروع کرتا ہوں تو ساتھ  میں کاغذ قلم آمادہ باش رکھتا ہوں۔ تاکہ کوئی نکتہ، تاریخی بات، کوئی اچھی بات، کوئی شعر یا ضرب المثال، محاورہ وغیرہ ملے تو نوٹ کیا تاکہ اردو دانی کے ذخیرے میں اضافہ ہوسکے۔ پچھلے نوٹس بناکر دیوار پر لٹکا دیئے تھے، گھر تبدیل کرتے وقت سب ضائع ہوگئے جس کا ابھی تک قلق ہے۔

خیر، اِس سال کی گرمیوں کی چھٹیوں میں درویش نے کچھ کتب کا مطالعہ کیا۔ جس میں جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا حسین احمد مدنی اور شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال سے متعلق ایک معمے کی گھتی سلجھانے والی ایک کتاب معروف ویب سائیٹ ریختہ پر ملی۔ راقم چونکہ جامعة الکوثر اسلام آباد کے زمانے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے اقبالیات میں گریجویش کرچکا ہوں تو جب یہ نظم وہاں پڑھی تھی تب سے یہ معمہ میرے ذہن میں بھی تھا۔

اب قارئین کی خدمت یہ بتاتا چلوں کہ علامہ اقبال کی اردو کتب میں سب سے آخر میں جو کتاب چھپی  ہے وہ "ارمغانِ حجاز" ہے۔ اِس کتاب کے آخر میں ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے "حسین احمد" ہے۔ یہ موصوف دارالعلوم دیوبند کے معروف عالم دین جمعیت علماء ہند کے صدر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ہیں۔ جن کی دیوبند مکتب فکر میں بڑی حیثیت ہے۔ اگرچہ آپ متحدہ ہندوستان کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔ علامہ اقبال کی پوری نظم پیشِ خدمت ہے:

عجم ہنوز نداند رموز ديں، ورنہ
ز ديوبند حسين احمد! ايں چہ بوالعجبی است

سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است

بمصطفی برساں خويش را کہ ديں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسيدی، تمام بولہبی است


کہتے ہیں کہ جب علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی اور جب اس نظم کا ہر سو چرچا ہوا تو مولانا حسین احمد مدنی کے چاہنے والوں کو یہ بہت برا لگا کہ اُن کے شیخ الالسلام کی ہجو میں یہ نظم لکھی گئی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ طالوت نامی شخص جو مولانا حسین احمد مدنی صاحب کا چاہنے والا تھا بیچ میں آیا اور علامہ اقبال اور حسین احمد مدنی کے درمیان خط و کتابت کے ذریعے سے سوءِ تفاہم کو دور کیا۔

اب وہ سوء تفاہم کیا تھا؟ تو جیسا کہ نظم سے بھی واضح ہے کہ مسلم قومیت کی بنیاد کیا ہوسکتی ہے؟ وطن یا دین۔ یہ اصل موضوع ہے۔ حسین احمد مدنی صاحب نے اپنے کسی خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قومیت کی بنیاد وطن ہے، جس پر علامہ اقبال  دینی غیرت میں آگئے تھے اور کہا یہ نرا دین سے بےخبری ہے قوم مذہب سے بنتی ہے نہ کہ وطن سے۔

طالوت صاحب کہتے ہیں کہ جب علامہ اقبال اور حسین احمد مدنی صاحب کے درمیان اُن کے واسطے سے خط و کتابت کا سلسلہ چلا تو یہ غلط فہمی یوں دور ہوگئی کہ مولانا حسین احمد مدنی نے کہا کہ جس طرح آج کی جدید دنیا میں عمومی طور پر "قوم" کہنا رائج ہے جیسے ہندوستانی قوم، انگریز قوم، ڈِچ قوم وغیرہ، اِس معنی میں، مٙیں نے یہ کہا ہے وطن قوم کی بنیاد ہے، نہ یہ کہ مسلمانوں کو یہ کہا ہو کہ تم وطن کو بنیاد بناکر مسلم قومیت وجود میں لے آو۔ یعنی یہ جملہ خبری ہے انشائی نہیں ہے۔ جس پر طالوت صاحب کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ پھر مجھے اس معنی میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ابھی جب مدرسہ امام خمینی رح قم المدسہ کی مرکزی لائبریری میں یہ تحریر سپردِ قرطاس کر رہا ہوں تو میرے سامنے بلتستان کی نامور شخصیت مولانا پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب "درختِ سحرا" پڑی ہے۔ جسے مرحوم کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جواد حیدر ہاشمی صاحب نے ترتیب و تدوین کیا ہے۔  ابھی چیدہ چیدہ کتاب کا  مطالعہ کیا ہے۔ ان شاء اللہ اگلی کسی تحریر میں وقت ملا تو اِس کتاب سے متعلق بھی تفصیل سے لکھوں گا۔ آج صرف اِس کتاب کے سرِ وقت پر مذکور پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب ہی کے اس شعر پر اکتفاء کیجیے:

نظر ہے کہ ابرِ کرم پر، درخت صحرا ہوں
کیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو
خبر کا کوڈ : 1157280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش