تحریر: زیڈ اے سید
اربعین کی مشی اس وقت انسانی شرکت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا واقعہ بن چکا ہے جس میں ہر نسل، قومیت اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوتے ہیں۔ وہ عظیم اہداف جن کی خاطر امام حسین علیہ السلام، ان کے اہلبیت اور اصحاب نے قیام کیا اور جام شہادت نوش کیا، اس قدر موثر تھے کہ 1400 سال گزر جانے کے بعد بھی ہر سال کروڑوں انسان کربلا کی جانب سفر کرتے ہیں اور ایثار اور مزاحمت کی اس عظیم مثال کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ تاریخی واقعہ دنیا بھر کے اہل تشیع کیلئے اتحاد کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن ایسی اسلام دشمن طاقتیں، خاص طور پر امریکہ جو مسلمانوں میں اتحاد اور وحدت کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ تصور کرتی ہیں شدید پریشانی اور تشویش کا باعث ہے۔ لہذا کچھ سال پہلے ایک اعلی سطحی امریکی فوجی عہدیدار نے اربعین واک کو "سیاہ اژدہا" کا نام دیا تھا اور خطے میں مغربی مفادات پر اس کے منفی اثرات سے خبردار کیا تھا۔
اس اعلی سطحی امریکی فوجی کمانڈر کی یہ پیشن گوئی بہت جلد حقیقت کا روپ دھار گئی اور اربعین اور اسلامی مزاحمتی سوچ کے فروغ نے تہران اور بغداد میں گہرے دوستانہ تعلقات کا زمینہ فراہم کر دیا جس کے نتیجے میں آج اسلامی مزاحمتی بلاک کی زمینی راہداری مکمل ہو چکی ہے اور یہ بلاک خطے کے موثر ترین اتحاد کی صورت میں ابھر کر سامنے آ چکا ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک اس وقت خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے ناجائز مفادات کیلئے زہر قاتل بنا ہوا ہے جبکہ اسلامی مزاحمت پر مبنی خطے کے جیوپولیٹیکل آرڈر نے عالمی نظام کو بھی متاثر کیا ہے اور عالمی سطح پر سپر پاورز کا کھیل ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا اسلامی مزاحمتی بلاک دراصل ایک جیوکلچرل (طاقت، ثقافت اور جغرافیائی علاقے پر مشتمل پیچیدہ عمل) عمل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اربعین خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تزویراتی گہرائی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
اسلامی مزاحمتی بلاک کی تشکیل میں اربعین کا مرکزی کردار
شوق شہادت اور حق پرستی پر مبنی اربعین کی روح اسلامی مزاحمتی بلاک میں پھونکی جا چکی ہے جس کی وجہ سے گذشتہ ایک عشرے کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے امت مسلمہ کے حقیقی دشمنوں یعنی امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی منحوس سازشوں کو ناکام بنا ڈالا ہے جبکہ اسلامی مزاحمتی بلاک غاصب صیہونی رژیم کی مکمل نابودی اور قدس شریف کی آزادی کیلئے اگلے مورچے کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی اور اکیسویں صدر کے آغاز میں اسے جنوبی لبنان سے نکال باہر کرنے کے بعد علاقائی سطح پر اسلامی مزاحمتی گروہوں کو غیر متوقع اور ناقابل یقین کامیابیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔ یہ ایسے وقت ہوا جب دنیا کے تمام بڑے بڑے سیاسی اور فوجی تجزیہ کار اس خطے میں صیہونی فوج کے خلاف گوریلا گروہوں کی کامیابی کو ناممکن قرار دے بیٹھے تھے۔
یہ عظیم کامیابی آئندہ کامیابیوں جیسے 33 روزہ جنگ میں تلوار پر خون کی فتح کا پیش خیمہ بن گئی اور آئندہ برسوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان رابطہ زیادہ مستحکم اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کی ایک مثال تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں ان کی فتح ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں نے اہلبیت اطہار علیہم السلام کے حرم اور مزاروں کے دفاع کیلئے شام اور عراق میں داعش کے خلاف میدان جنگ میں قدم رکھا اور مکتب عاشورا سے سبق لیتے ہوئے اس شیطانی ٹولے کو عبرتناک شکست سے روبرو کیا۔ اس طرح انہوں نے حق اور باطل کے درمیان ٹکراو کی عکاسی کرنے والے میدان کربلا کی تصویر دنیا والوں کے سامنے دوبارہ پیش کر دی۔ یوں یہ عبری مغربی فتنہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گیا اور خطے میں کربلا والوں کا بول بالا ہو گیا۔
اربعین، طوفان الاقصی اور مزاحمتی جیوپولیٹیکل بنیادوں پر خطے کا نیا آرڈر
جس طرح امام حسین علیہ السلام کے قیام نے ثقافتی اور انسانی حدود پار کر کے دنیا والوں کے سامنے ظلم سے مقابلے کی نئی روایت پیش کر دی تھی اسی طرح اسلامی مزاحمت نے بھی اربعین سے سبق حاصل کرتے ہوئے مختلف ثقافتی، اقتصادی اور فوجی میدانوں میں امت مسلمہ کی پوزیشن مضبوط بنانا شروع کر دی۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں کا مقصد آزادی اور خودمختاری کا حصول اور مختلف قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر مغربی اور مشرقی استعماری طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی دنیا کی طاقت میں اضافہ کرنا ہے۔ اس نئے جیوپولیٹیکل محاذ کا علمبردار اسلامی انقلاب، اسلامی بیداری اور اسلامی مزاحمت کی طاقتیں ہیں۔ ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے خطے میں امریکہ اور صیہونی رژیم پر حملوں کا مقصد انہیں اسلامی معاشروں سے نکال باہر کرنا ہے جن کا واحد کام فتنہ انگیزی کرنا ہے۔
دوسری طرف طوفان الاقصی آپریشن نے اسلامی مزاحمتی جیوپولیٹیکس کی بنیاد پر نیا علاقائی آرڈر تشکیل دے دیا ہے۔ اربعین حسینی کی پرتو میں اس نئے علاقائی آرڈر کا ایک اہم اور بنیادی مقصد مظلوم فلسطینی قوم پر انجام پائے تاریخ ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور یوں اسرائیل نامی سرطانی غدے کا مکمل خاتمہ ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن نے مقبوضہ فلسطین کے اندر ہلچل مچانے کے ساتھ ساتھ علاقائی مساواتوں کو بھی بنیادی تبدیلی کا شکار کر دیا ہے۔ فلسطینی مجاہد اپنی پوری طاقت سے غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت اور بدمعاشی کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کی فوجی طاقت پر کاری ضربیں لگانے میں مصروف ہیں۔ گذشتہ ایک ماہ کے دوران اسلامی مزاحمتی گروہوں نے مغربی حکمرانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ خطے میں کوئی بھی تبدیلی اسلامی مزاحمت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہذا اب امریکہ اسلامی مزاحمت کے سامنے بے بس ہو چکا ہے اور خطے میں اس کا اثرورسوخ روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔