تحریر: سید اسد عباس
انسانی تاریخ طرح طرح کے واقعات اور کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ انسان جس روز یہ سوچتا ہے کہ اسے سب معلوم ہوگیا عین اسی روز ایک نیا واقعہ جو ماضی میں ہوا اس کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور اسے آگاہ کرتا ہے کہ ابھی جاننے کا سفر جاری ہے۔ تاریخی واقعات، نظریات، حقائق تقریبا سبھی کی یہی صورتحال ہے۔ لہذا ایک علم دوست شخص کو ہمیشہ نئی معلومات کے لیے آمادہ رہنا چاہیئے۔ اگر اپنے ذہن کو مختلف وابستگیوں سے آزاد کرلیں تو آپ کے لیے معلومات کے بہت سے نئے در کھلتے ہیں جن کا کسی انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ اگر انسان اپنے ذہن کو ایک خاص فکری ماحول میں مقید رکھے تو وہ کبھی فکری طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔
آسٹن اسکول کے استاد ڈاکٹر رائے کاساگارانڈا جو تاریخ میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں، حب الوطنی اور نیشنلزم میں فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حب الوطنی میں دوسری اقوام اور ملکوں سے نفرت کا عنصر نہیں ہوتا ہے۔ آپ ایک ملک سے محبت رکھتے ہیں تو اس سے قطعاً یہ مراد نہیں کہ آپ کسی دوسرے سے نفرت کریں مگر نیشنلزم کی بنیاد نفرت پر ہوتی ہے۔ خود کو ایک برتر قوم سمجھنا اس بات کا متقاضی ہے کہ دوسرے کو کمتر سمجھا جائے۔ رائے کاسا گارانڈا کہتے ہیں کہ نیشنلزم کی بنیاد امتیازات پر ہوتی ہے یعنی وہ یہودی نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہے، وہ جرمن نہیں ہے، وہ گورا نہیں ہے، وہ عرب نہیں ہے، وہ عجم نہیں ہے۔ اسی نیشنلزم کے باعث فقط دوسری جنگ عظیم میں 65 ملین افراد لقمہ اجل بنے۔
نیشنلزم کی بنیاد خواہ مذہب ہو، نسل ہو، جلد کا رنگ ہو، زبان ہو اگر یہ اقتدارتک پہنچ جائے یا اسے اقتدار تک پہنچنے کا شائبہ ہو جائے تو اس کا تقاضا ہے کہ اپنے مخالفین کا خاتمہ کیا جائے۔ نیشنلزم اپنے غیر کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیتا، اس کی بنیاد چونکہ اپنی برتری پر ہے لہذا یہ اپنے غیر کو کمتر سمجھتا ہے اور ضروری سمجھتا ہے کہ اگر ناگزیر ہو تو کمتر کا خاتمہ کر دیا جائے۔ نیشنلسٹ کے لیے کمتر انسان کو قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہم سانپ یا چھپکلی مار دیتے ہیں۔ اس کی مثالیں انسانی تاریخ میں بھری پڑی ہیں جب لوگوں نے نیشنلزم کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو قتل کیا،برصغیر میں بھی ایسا ہی قتل عام 1946ء اور 1947ء میں ہوچکا ہے۔ جرمنز نے اسی جذبے کے تحت دوسری اقوام کا قتل کیا جن میں یہودی، سوویت، چپسیز شامل تھے۔
ہمارا آج کا موضوع تاریخ کا ایک واقع ہے جسے وارسا گیٹو کی بغاوت کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ وارسا پولینڈ کا دارالحکومت ہے۔گیٹو وارسا میں موجود 3.3 کلومیٹر کا علاقہ تھا جہاں تقریبا چار لاکھ کے قریب انسان رہائش پذیر تھے۔ ڈاکٹر رائے کے مطابق جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی مانند پولینڈ میں بھی مختلف طرح کے آئینی، قانونی اور اجرائی حربوں کے بعد 1939ء میں جرمنز نے فیصلہ کیا کہ یہودیوں کو پولینڈ کے ایک مخصوص علاقے تک محدود کر دیا جائے، اس مقام کو گیٹو کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رائے کے مطابق ایسے علاقوں میں ایک بڑی آبادی کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ بیماریاں، معاشی مسائل، روزگار کی کمی وغیرہ۔ ڈاکٹر رائے کے مطابق یہ کنسنڑیشن کیمپ نہیں ہوتے بلکہ ان سے پہلے درجے کا مقام ہوتا ہے جہاں کے لوگوں کو کم وسائل زندگی کے ساتھ بطور لیبر استعمال کرنا آسان ہوتا ہے۔
ایس ایس ہٹلر کی رضاکار فورس تھی جس کا کام ہٹلر کے نظریاتی مقاصد یعنی جرمن نیشنلزم کی ضروریات کو شرمندہ تعبیر کرنا تھا۔ یہ فورس جرمن فوج کا حصہ نہ تھی بلکہ رضاکاروں کی فورس تھی۔ ایس ایس فورس کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ گیٹو کی آبادی کو ٹربلنکا کیمپ میں شفٹ کرے۔ گیٹو کے باسیوں کو بتایا گیا کہ ہم آپ کو سوویت علاقے میں آباد کرنے جا رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر سات ہزار افراد ٹربلنکا منتقل کیے جانے لگے۔ 1942ء میں گیٹو کے عوام کو معلوم ہوا کہ انھیں سوویت یونین میں نہیں بلکہ ٹربلنکا نامی کیمپ میں شفٹ کیا جارہا ہے تو انھوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ گیٹو میں دو مسلح تنظیمیں کام کر رہی تھیں ایک زیڈزیڈ ڈبلیو اور دوسری زیڈ او بی دونوں تنظیمیں مخلتف نظریات کی حامل تھیں۔ ان تنظیموں نے گیٹو میں مختلف سرنگیں بنائی ہوئی تھیں جس کے ذریعے یہ گیٹو سے باہر کی آبادی سے رابطے میں تھے۔
یہ لوگ سرنگوں کے علاوہ سیوریج سسٹم کا بھی استعمال کرتے تھے۔ 1943 میں جب ایس ایس نے جب گیٹو کی جانب پیش قدمی کی تو ان دونوں تنظیموں نے ہلکے ہتھیاروں سے ایس ایس رضاکار فورس کو ناکوں چنے چبوائے تاہم آخر کار دونوں تنظیموں کے بچے کچھے اراکین کو اپنی بنائی ہوئی سرنگوں کے ذریعے گیٹو سے فرار کرنا پڑا۔ اس بغاوت میں تقریبا 13 ہزار افراد قتل ہوئے۔ ایس ایس کو جب اندازہ ہوا کہ دونوں مسلح تنظیمیں ہم پر زمین کے اندر سے حملے کر رہی ہیں تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ عمارتوں کو ان کے سروں پر گرا دیا جائے، یا آگ لگا کر عمارت کو بھسم کر دیا جائے جس کے نتیجے میں تقریبا 6000 افراد زندہ جل کر مرگئے۔ باقی بچ جانے والے افراد کو مختلف کیمپس میں بھیج دیا گیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گیٹو کی آبادی میں سے تقریبا اڑھائی لاکھ لوگ پہلے ہی مختلف کمیپوں میں بھیجے جا چکے تھے، یہ بغاوت باقی رہ جانے والے تقریبا پچاس ہزار افراد نے انجام دی۔ ایس ایس نے گیٹو کو فتح کرنے کے بعد پورے گیٹو میں موجود عمارتوں کو مسمار کر دیا اور اس مقام پر ایک کمپلیکس بنایا گیا۔ زیڈ زیڈ ڈبلیو دائیں بازو کی مسلح جماعت تھی جسے پولینڈ کی فوج سے فارغ ہونے والے یہودیوں نے بنایا تھا، اس گروپ کے پولش ہوم آرمی کے ساتھ روابط تھے، گیٹو سے نکلنے کے بعد یہ گروپ پولینڈ ہوم آرمی کے ہمراہ بھی لڑا۔ زیڈ او ڈبلیو بائیں بازو کے نوجوانوں کا گروہ تھا جس کا تعلق سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ اس گروپ نے جب محسوس کیا کہ سوویت آرمی پولینڈ کی جانب پیش قدمی کر رہی ہے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مزاحمت کریں تاکہ سوویت آرمی سے لین دین کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں تاہم جس وقت سوویت یونین کو اس بغاوت کا علم ہوا تو اس نے اپنی پیش قدمی روک دی تاکہ جرمنی آسانی سے گیٹو کی آبادی سے نمٹ لے۔
مغربی دنیا یعنی امریکا اور برطانیہ ان تمام واقعات کو خاموشی سے دیکھتے رہے۔ برطانیہ میں مقیم زیڈ زیڈ ڈبلیو کا ایک رکن جو کہ اتحادی افواج سے رابطے میں تھا نے جب دیکھا کہ اس کی بات کو کوئی سننے والا نہیں ہے اور اس کے لوگ مر رہے ہیں تو اس رکن نے احتجاجاً خودکشی کی تاہم اس کی خودکشی سے بھی اتحادیوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اگر آج ہم غزہ کی صورتحال کو دیکھیں تو گیٹو سے کچھ مختلف نہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کل جو کچھ یہودیوں کے ساتھ ہوا وہی کچھ آج وہ دوسری اقوام کے خلاف آزما رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نیشنلزم جہاں بھی در آئے اس کے اثرات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ نیشنلسٹ نہ تاریخ سے سبق سیکھتا ہے، نہ یہ سوچتا ہے کہ وہ ظلم نہ کرے جو خود اس کے خلاف کیا گیا۔ نیشنلزم کی یہ جنونی حالت انسانی آفات میں سے ایک ہے خدا انسانوں کو اس آفت سے بچائے۔ آمین