اسلام ٹائمز۔ آج سعودی عرب کے دارالحکومت "ریاض" میں شام کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا، جس میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان" نے کہا کہ دمشق دوسرے علاقائی ممالک کے لئے خطرہ نہیں بننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شام کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض میں ہونے والے اجلاس کا مطمع نظر یہ ہے کہ شام کے داخلی و بیرونی مسائل وہاں کی عوام کی مدد سے حل ہونے چاہئیں۔ فیصل بن فرحان نے کہا کہ شام کا مستقبل وہاں کے لوگوں سے جڑا ہوا ہے۔ جس کی ضروری مدد اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شام پر پابندیوں کا تسلسل اس ملک کے عوام کا بھرکس نکال دے گا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ شام سے یکطرفہ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
واضح رہے کہ "شام کے مستقبل" کے عنوان سے آج ریاض میں یہ پہلا بین الاقوامی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں باغیوں کے وزیر خارجہ "اسعد الشیبانی"، اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے شامی امور "گئیر پیڈرسن"، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ "کایا کیلس" اور دیگر عرب ممالک کے حکام شریک ہوئے۔ اسی اجلاس میں خلیج فارس تعاون تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل "جاسم البدیوی" بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے شامی سرزمین پر تازہ صیہونی حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو شام کے تمام حصوں سے نکل جانا چاہئے۔ جاسم البدیوی نے مقبوضہ گولان ہائٹس پر صیہونی کالونیوں میں توسیع کے منصوبے کی مذمت کی۔ آخر میں انہوں نے شام سے تمام پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیلی فوج نے مقبوضہ گولان ہائٹس اور صوبہ "قنیطرۃ" میں اپنے قبضے کو بڑھاتے ہوئے ایک وسیع بفر زون قائم کر لیا۔ یہ بفر زون صیہونی رژیم کی سلامتی کے بہانے قائم کیا گیا۔ دوسری جانب عراق کے استقامتی رہنماء شیخ "قیس الخز علی" نے گزشتہ شب شام کی حالیہ صورت حال کے تناظر میں خلیج فارس کے عرب ممالک کی تشویش کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ متعدد عرب ممالک شام میں ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے لئے خطرہ شمار کرتے ہیں۔ شیخ قیس الخز علی نے اس بات کی وضاحت کی کہ ترکیہ و قطر جیسے ممالک شام میں تبدیلی کے بہانے نئی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم یو اے ای، اردن، مصر اور سعودی عرب شام کی صورت حال پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ ایران سے زیادہ ترکیہ و قطر اُن کے لئے خطرہ ہیں۔