0
Sunday 20 Oct 2024 22:04

کروڑ روپے مالیت کا سونا مقاومت کو عطیہ کرنیوالی بیوہ خاتون کی کہانی

کروڑ روپے مالیت کا سونا مقاومت کو عطیہ کرنیوالی بیوہ خاتون کی کہانی
اسلام ٹائمز۔ کبھی کبھی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ایک انسانی عمل اتنا متاثر کن اور طاقتور ہوتا ہے کہ وہ دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور روحوں کو بیدار کرتا ہے۔ آج ہم ایک ایسی ہی کہانی کے بارے میں بات کریں گے جو دل کو گرما دینے والی ہے۔ یہ کہانی ہے ایک بہادر تبریزی خاتون کی، جو اپنے عزم اور استقامت کے ساتھ اپنی سونے کی چیزیں صہیونیت کے خلاف مزاحمت اور مقاومت کے لیے وقف کر دیتی ہے۔ ایک ایسی عظیم مثال، جو یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک عورت کی طاقت کو کبھی بھی کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہماری دنیا میں، جہاں ہر روز نئے چیلنجز ابھرتے ہیں، وہاں کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جو حوصلے، محبت اور قربانی کی مثال قائم کر رہی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جو خزاں کے دوران برف کی سرد مہریوں میں بھی بہار کی خوشبو پھیلا دیتی ہیں۔ جب ہم ایرانی خواتین کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں ان کی طاقت اور عزم کا اندازہ ہوتا ہے جو اس وقت عالمی سطح پر ایک تحریک کی علامت بن چکی ہیں۔ جیسے کہ یہ خواتین سرد اور تاریک موسم میں روشنی کی کرن بن کر ابھری ہیں، ویسے ہی یہ ایک دوسرے کی طاقت بن کر ایک دل کی مانند دھڑک رہی ہیں۔

ایک عورت اپنی قوت ارادی سے دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ جب غزہ اور لبنان پر صہیونیوں کے حملے کی خبر گردش کرنے لگیں، تو یہ خواتین بے چین ہو گئیں۔ انہوں نے صرف آواز بلند نہیں کی بلکہ عملی طور پر بھی اپنے وجود کو اس تحریک میں شامل کر دیا۔ انہوں نے اپنی قیمتی چیزیں، اپنی بچتیں، اپنی جمع کی ہوئی سونے کی چیزیں، سب کچھ اس مزاحمت کی خاطر وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف ان کی ذاتی قربانی بلکہ ان کی اجتماعی حیثیت اور موثر کردار کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے پیغام کا حامل ہے جو پوری دنیا میں گونج رہا ہے، ایک دل جو مظلومیت کے خلاف اٹھتی ہوئی آواز میں دھڑک رہا ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ جب خواتین حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں تو وہ ہر دیوار کو ڈھیر کر سکتی ہیں، ہر ظلم کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ ترک، لُر، مازنی، گیلکی، بلوچی اور عرب خواتین کا دل ایک ہو چکا ہے اور یہ سب ایک ہی نعرے پر متفق ہیں، ہم خزاں اور تاریکی کے چنگل کو توڑ دیں گے!
یہاں پر ایک سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ ان طاقتور خواتین کے اس مثالی اقدام کی اہمیت کو سمجھتے ہیں؟ یہ صرف سونے کی چیزیں نہیں ہیں جو وہ قربان کر رہی ہیں بلکہ یہ ان کا عزم، لگن اور انسانیت کے لیے ان کی محبت کا ثبوت ہے۔ ایک عورت کی طاقت اس کا عزم و ہمت اور خوداعتمادی کیساتھ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی آواز کو بلند کریں اور مظلوموں کے حامی بن کر ظالموں کے خلاف لڑیں۔ کبھی بھی کسی ایک عورت کی طاقت کو کم نہ سمجھیں کیونکہ یہ طاقت زمین کو ہلا سکتی ہے اور بے شک، یہ خواتین آج کی دنیا میں امید کی کرن ہیں! آئیے ہم سب مل کر ان کی حمایت کریں اور اس طاقتور تحریک کا حصہ بنیں تاکہ ہم بھی اس پیغام کو ہر کونے تک پہنچا سکیں کہ ہم سب ایک ہیں اور کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

طاقتور ایرانی خواتین:
خواتین کی زندگیوں میں سونے کا پہناوا ہمیشہ سے ایک طاقتور علامت رہا ہے جو ان کی شناخت، خود اعتمادی اور ذاتی تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔ ایرانی خواتین کے لیے، سونا محض ایک قیمتی دھات نہیں بلکہ ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ان کی خوشیوں کا ذریعہ ہے، جہاں سونا اپنی چمک اور خوبصورتی کے ذریعے انہیں خوشی اور سکون فراہم کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خواتین کے لیے سونا ایک تھراپی کی حیثیت رکھتا ہے، جسے وہ کبھی بھی کھونے کے لیے تیار نہیں۔ یہ خوشبو یا چمکدار سونے کے زیورات صرف ان کی ظاہری خوبصورتی کو بڑھانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی زندگی کی کہانیاں بھی سناتے ہیں۔ یہ یادگاریں ہیں، جو کسی پیارے کی یاد دلاتی ہیں، ایک گلوبند جو ماں سے بیٹی کو وراثت میں ملتا ہے، یا وہ انگوٹھی جو شادی کے خوشگوار لمحات کی گواہی دیتی ہے۔ ان کے لیے سونے کا مطلب صرف مالی قیمت سے بڑھ کر ہے، یہ ان کی زندگیاں، روایات اور یادیں ہیں۔

ایرانی خواتین کی جدوجہد نے انہیں طاقتور بنایا ہے اور یہ طاقت سونے کی چمک سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آج کی خواتین تاریخ کے صفحات میں یاد رکھی جائیں گی کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنی قیمتی دولت بلکہ اپنے دلوں کی گہرائی سے بھی گزر کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ بہن کی مانند دوسری خواتین کے حقوق کی محافظ بنی ہیں اور ان کی شجاعت اور ہمت نے انہیں بے خوفی کی نئی مثال بنا دیا ہے۔ جب ہم ایرانی خواتین کی بات کرتے ہیں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ صرف ایک قیمتی دھات کی چمک نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پیغام ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو ظالم معاشرتی اصولوں کے خلاف کھڑی ہوئی ہے تاکہ بے آواز خواتین کی آواز بن سکے۔ آج کی ایرانی خواتین سونے کی اس چمک کو اپنے ہاتھ میں لے کر عالمگیر بہن کی حیثیت سے ایک نئی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ ان کا عزم اور محبت اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ صرف سونے کی خوبصورتی تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک ایسی طاقت بن گئی ہیں جو اپنی آواز، عمل اور عزم سے دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
سچ یہ ہے کہ سونے کی خوبصورتی ٹوٹ جانے یا میلے ہونے پر بھی برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح ایرانی خواتین کی طاقت بھی مشکلات اور چیلنجز کے سامنے ہمیشہ چمکتی ہے۔ وہ ان زیورات کی طرح ہیں جن کی چمک کبھی مدھم نہیں ہوتی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور زیادہ روشن ہوتی ہے۔ آج کی ایرانی خواتین نہ صرف اپنی طاقت اور صلاحیتوں کا اظہار کر رہی ہیں بلکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کر رہی ہیں کہ سچائی، ہمت اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہی اصل قوت ہے۔

ایثار کی عظیم مثال: 
یہ ایک مقدمہ ہے تاکہ آپ کو شہید پرور ایرانی سرزمین کی ایک بہادر خاتون کے بارے میں بتایا جا سکے۔ جب خانم شمس‌ آذران کی کہانی سامنے آئی تو ایک لمحے کے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔ آخر ایسے کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنی زندگی کی اتنی خوبصورت نعمتوں کو بغیر کسی لالچ کے چھوڑ دے؟ لیکن جب ان کی قربانیوں کے بارے میں مزید معلوم ہوا تو ہر ایک کے دل میں ان کے لیے بے انتہا احترام پیدا ہوگیا۔ آج کی یہ کہانی ہمیں بیسویں صدی کی عظیم قربانیوں کی مثال یاد دلاتی ہے۔ خانم شمس‌ آذران، جن کے شوہر آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران جنگ میں شامل رہے، نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی دولت، یعنی ایک ہزار 750 ملین تومان مالیت کے طلائی زیورات کو جبهہ مقاومت لبنان کے نام وقف کر دیا۔ یہ صرف ایک عدد نہیں بلکہ اس کے پیچھے جو جذبات اور عزم چھپا ہے وہ اس کی حقیقی قیمت کو بیان کرتے ہیں۔

اُن کے ایثار کی خبر جب سنی گئی تو ہر ایک کے دل میں حیرت اور خوشی کا ایک طوفان اُمڈ آیا۔ احمد زاده، آذربایجان شرقی میں جبهہ مقاومت کے سپورٹ اسٹاف کے صدر نے کہا کہ یہ ایک شاندار موقع ہے کہ ہمیں اس خاتون کی قربانی کی خبر دفتر مقام معظم رهبری کو بھیجنی چاہیے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بہادر خواتین جب میدان میں آتی ہیں تو ان کی طاقت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ضروری ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کو بھی معلوم ہو کہ تبریز جیسے شہر میں ایسے افراد موجود ہیں جو بے لوث طریقے سے مظلومین کے لیے اپنا سرمایہ نچھاور کر رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی کئی ایثار کا مظاہرہ کیا گیا ہے، مگر اس بار خانم شمس‌ آذران کی شاندار قربانی نے سب کو متوجہ کیا ہے۔
ان کا یہ اقدام نہ صرف محبت اور ایثار کا عکاس ہے بلکہ یہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ انسانی اقدار آج بھی زندہ ہیں۔ جب ہم ایسی کہانیوں کو سنتے ہیں تو ہمارے اندر خود بھی کچھ بڑا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آخر میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ دیانتداری اور ایثار کی مثالیں کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی۔ خانم شمس‌ آذران جیسی خواتین ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایک روشنی کی کرن ہیں، جو ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ حقیقی خوشی دوسروں کی خدمت میں ہے۔ ان کی قربانی کا چراغ ہمیشہ جلتا رہے گا اور ہم سب کو تحریک دیتا رہے گا کہ ہم بھی اپنی زندگی میں ایثار کا ایک چھوٹا سا کردار ادا کریں۔ یہ شہید پرور ایرانی سرزمین کی خواتین کی طاقت ہے، جو ہمیشہ ہمیں متاثر کرتی ہیں اور ہماری روحوں میں چراغ روشن کرتی ہیں۔

کاش میرے پاس زیادہ سونا ہوتا:
کسی معاشرے کی خوبصورتی وہاں کے لوگوں کے سچے جذبے میں چھپی ہوتی ہے اور خانم شمس‌ آذران جیسے افراد اس جذبے کو جنم دیتے ہیں۔ ایک ایسی خاتون جو اپنی زندگی کے ہر لمحے میں ایثار اور انفاق کا سبق دیتی ہیں۔ ان کے الفاظ میں جوش و خروش اور ہمدردی کی ایک خصوصیت ہے۔ انہوں نے درالقرآن پایگاه مقاومت کی ذمہ داری سنبھال کر صرف ایک نیک عمل کی بجائے ایک عزم کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ان کی سادگی اور عاجزی ان کے انداز گفتگو میں جھلکتی ہے جب وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے کام کو کبھی بڑا نہیں سمجھیں گی، مگر حقیقی معنوں میں یہی نیک عمل انہیں ممتاز بناتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زندگی میں سادگی اور انفاق کا کتنا بڑا مقام ہے؟ خانم شمس‌ آذران کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پاس زیادہ سونا ہوتا تو وہ مظلوموں کی اس سے بڑھ کر مدد کر پاتیں۔ ان کی یہ سوچ ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقی کامیابی مال و دولت نہیں بلکہ دوسروں کی مدد کرنے میں ہے۔ جب وہ کہتی ہیں کہ "کاش میرے پاس زیادہ سونا ہوتا" تو اس کے پیچھے ایک گہری خواہش ہے، وہ چاہتی ہیں کہ ان کی محنت اور لگن کا اثر ان لوگوں پر ہو جو مشکلات میں ہیں۔ 

آٹھ سالہ دفاع مقدس کے جانبازوں کے ساتھ ان کا رشتہ ان کی زندگی کا ایک منفرد پہلو ہے اور یہ بات ان کے شوہر کی حمایت اور حوصلہ افزائی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی خوشیوں کی بنیاد اس نیکی میں رکھی، جہاں ان کے شوہر کا فخر ان کے کام کا ایک بڑا سبب بنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، تو اس نیکی میں دنیا کی سب سے بڑی دولت شامل ہو جاتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان جیسے لوگوں کی کاوشیں صرف انہیں نہیں بلکہ پورے معاشرے کو مضبوط کرتی ہیں۔ خانم شمس‌ آذران ایسی ہی بے لوث خواتین کا کامل نمونہ ہیں جو محسوس کرتی ہیں کہ انسانیت کا تکامل ان کی ایثار گری میں ہے۔ ان کی یہ خواہش کہ "کاش میرے پاس زیادہ سونا ہوتا" ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں اپنی قابلیت کو استعمال کر کے دوسروں کی مدد کرنی چاہیے، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔

آخری بات یہ کہ خانم شمس‌آذران نے ایثار اور نجابت کی جو مشعل روشن کی ہے، وہ نہ صرف انہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرے گی۔ ان کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں خوبصورتی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم ایک دوسرے کی مدد کریں اور اپنی دولت کو بہتر مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ خواتین جیسے خانم شمس‌آذران ہماری معاشرتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، کیونکہ انہوں نے ایثار کی قینچی اٹھا کر ظلم کے دھاگے کو کاٹا اور دنیا میں خوشیاں پھیلائیں۔ یہ واقعی ایک عظیم ورثہ ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان کی محبت اور قربانی کی داستانیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
خبر کا کوڈ : 1167564
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش