ترتیب و تنظیم: عمار پارسا
اسرائیل جو خود ہتھیار بنانے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس وقت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے ہتھیار درآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) نے اسلحہ برآمد کرنے والے 10 بڑے ممالک کے حصے کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسرائیلی حکومت کی زیادہ تر ہتھیاروں کی ضرورت امریکہ کی لامحدود امداد سے فراہم کی جاتی ہے، جو کہ ہتھیاروں کی درآمدات کا تقریباً 69 فیصد ہے۔ امریکہ نے غزہ جنگ میں اسرائیل کو بموں اور لڑاکا طیاروں سمیت ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کی منظوری دیے کر اس کی کی فوری منتقلی کی اجازت دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کی تصدیق کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ ہتھیاروں کے نئے پیکجز میں 1800 ایم کے-84 2,000 پاؤنڈ بم اور 500 ایم کے-82 500 پاؤنڈ بم شامل ہیں۔
واشنگٹن اسرائیل کو سالانہ 3 ارب 80 کروڑ ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے۔ یہ پیکج ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل کو غزہ میں مسلسل بمباری اور زمینی حملوں پر سخت بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے اور جو بائیڈن کی پارٹی کے کچھ ارکان نے بھی ان سے امریکی فوجی امداد میں کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو فضائی دفاع اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے، لیکن کچھ ڈیموکریٹس اور عرب امریکی گروہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کی مستقل حمایت پر تنقید کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، دو امریکی اہلکاروں نے اسے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے واشنگٹن نے کم از کم 14,000 مارک-84 بم جن کا وزن 500 پاؤنڈ ہے، 3000 ہیل فائر ایئر ٹو گراؤنڈ میزائل، 1000 مارٹر بم، 2600 ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور دوسرا گولہ بارود صیہونی حکومت کو ارسال کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلحے کی ترسیل کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صیہونی حکومت کو امریکی فوجی امداد میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ہتھیاروں سے متعلق امور کے ماہر ٹام کاراکو نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ یہ اعداد و شمار واضح طور پر اسرائیل (حکومت) کے لیے امریکی حمایت کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ IRNA کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023ء کو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد سے اسرائیل کو 50,000 سے زیادہ توپ کے گولے ارسال کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مبینہ طور پر کانگریس کو دیگر فوجی امداد کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت نہیں ہے بشرطیکہ اگر یہ ایک خاص رقم سے کم ہو۔
تاہم، امریکی میڈیا نے اسرائیل کو دیگر فوجی سازوسامان کی فروخت کی اطلاع دی ہے، جس میں گائیڈڈ کٹس بھی شامل ہیں، تاکہ روایتی بموں کو پاتھ فائنڈر سسٹم والے گائیڈڈ بموں میں تبدیل کیا جا سکے۔ جرمنی اگلے نمبر پر ہے، جرمنی کی طرف سے اسرائیل کو اس ملک کی اسلحہ جاتی برآمدات کی مقدار (30%) ہے۔ لہذا اس پر حیران نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اسرائیل کی اتنی زیادہ حمایت کیوں کرتا ہے۔ اٹلی سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات 0.9 فیصد ہے اور اس حوالے سے یہ تیسرے نمبر پر ہے۔ برآمدات کا یہ حجم بھی اٹلی کے لئے کافی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کاروبار کی وجہ سے غاصب صیہونی حکومت کی ہر جگہ حمایت کرتا نظر آتا ہے۔
SIPRI کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-2023ء میں فرانس سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی کوئی بڑی برآمدات نہیں ہوئی، فرانس سے اسرائیل کو آخری بڑی ہتھیاروں کی برآمد 1998ء میں ہوئی تھی۔ تاہم فرانس نے کئی بار ہتھیاروں کے پرزے ضرور فراہم کیے ہیں۔ برطانیہ اسرائیل کو ہتھیا برآمد کرنے والا بظاہر بڑا برآمد کنندہ نظر نہیں آتا، لیکن عملی طور پر یہ اسرائیل کی حمایت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ بینجمن نیتن یاہو کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو "ناپسندیدہ عنصر" قرار دینے کے بعد اسپین نے یورپی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کریں اور اس پر ہتھیار اور اقتصادی پابندیاں عائد کریں۔
اسلحہ برآمد کرنے والے 10 اہم ممالک کی فہرست میں روس اور چین (تیسرے اور چوتھے بڑے برآمد کنندگان) کے نام ہیں، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم نہیں کرتے۔ 10ویں ہتھیار برآمد کرنے والے ملک کے طور پر جنوبی کوریا کا حصہ بہت کم ہے اور یقیناً اسرائیل خود جو کہ دنیا میں 9ویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایک اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اس حکومت کو جرمنی سے ہتھیار درآمد کرنے کا لائسنس حاصل کرنے میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے