1
Sunday 20 Oct 2024 14:26
حملہ آور کتنے تھے اور کس راستے سے آئے؟

پاراچنار (غوزگڑھی) کے حالیہ خودکش حملہ آوروں کی تفصیلی روئیداد

خود کش منصوبہ کیسے ناکامی کا شکار ہوا؟
متعلقہ فائیلیںرپورٹ: ایس این حسینی

جمعرات 17 اکتوبر کو ہونے والے واقعے کی پوری منصوبہ بندی پر تفصیلی رپورٹ آپکی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ جس کے لئے وقوعہ سمیت استعمال ہونے والے روٹ کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہے اور نقشے کی مدد سے وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ ملزمان کے مذموم مقاصد اور اصل منصوبے کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حالیہ سانحہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ خودکش دھماکے کی ایک گھناونی سازش تھی، جو اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے ناکام ہوئی۔ واقعے سے ایک روز قبل بدھ 16 اکتوبر 2024ء کو مبینہ طور پر دو مشکوک افراد ایک کرولا گاڑی میں آتے ہیں اور غوز گڑھی خواڑ (برساتی نالے) پر موجود پختہ فرش سے نیچے شمال یعنی دریائے کرم کی جانب بڑھتے ہیں۔ خواڑ میں موجود طوطک اور باسو کے بچوں سے مین روڈ تک کے راستے کی بابت معلومات حاصل کرتے ہیں۔ جو انہیں روڈ تک آنے جانے کا راستہ بتا دیتے ہیں۔ یہ لوگ دریا کو عبور کرکے مبینہ طور پر روڈ تک جاتے ہیں اور کچھ دیر بعد اسی راستے سے واپسی کرتے ہیں۔

اگلے روز یعنی جمعرات 17 اکتوبر کو مبینہ طور پر مشرق کی طرف، یعنی شاخ اور بوشہرہ کی جانب سے گاڑی میں ان ملزمان کی آمد کے شواہد ملے ہیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق کمر پر بیگ باندھ کر چادر لپیٹے، دو مسلح افراد راستے میں جگہ جگہ لوگوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں، اس دوران اگر کوئی ان سے سوال کرتا تو جواب میں ملزمان کہتے تھے کہ انکا تعلق تہران گروپ سے ہے اور یہ کہ قلندر کی قبر پر پروگرام اٹینڈ کرنے آئے تھے۔ روضہ (نستی کوٹ) پہنچ کر وہاں موجود ایک شخص سے مسجد میں جرگہ پروگرام کا پوچھتے ہیں، جواب ملتا ہے کہ وہ پروگرام ختم ہوکر شنگک مسجد تبدیل ہوچکا ہے۔ جاپکی (جپکی) کلی اور باسو کے درمیان مبینہ طور پر گاڑی سے اتر کر شنگک کی طرف جانے لگتے ہیں تو راستے میں موجود افراد انہیں مشکوک قرار دیکر واپس کر دیتے ہیں۔ چنانچہ مین روڈ سے جنوب کی طرف مڑ کر کھیتوں سے ہوتے ہوئے دریائے کرم پہنچتے ہیں۔

اس دوران ایک چھوٹے بچے کے ساتھ مونگ پھلی اکھاڑنے پر پھڈا ہوتا ہے، یوں اس بچے کو بھی ان پر شک گزرتا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے باسو خواڑ کے ساتھ دریائے کرم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دریا پہنچ کر مغرب کی جانب موڑ کر دریا کے برعکس کنارے کنارے مغرب کی طرف جاتے ہیں اور کچھ آگے جا کر جنوب کی جانب موڑ کر دریا کو عبور کرتے ہیں اور دریائے کے کنارے موجود حفاظتی پشتے پر چڑھ کر طوطک والے ہدایت حسین، جو اپنے کھیتوں میں درخت کاٹ رہے تھے، ان کے کھیتوں میں داخل ہو جاتے ہیں، اسی دوران پیچھے سے کچھ لوگ ہدایت حسین کو آواز دیتے ہیں کہ یہ لوگ مشکوک ہیں، روکو انہیں۔ وقوعہ سے سو میٹر کے فاصلے پر مغرب میں اپنے کم سن بیٹے کے ساتھ موجود ہدایت حسین اپنی ریپیٹر کے ہمراہ ان کی طرف لپکتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ کون ہو تم لوگ؟ اسی دوران وہ انہیں گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ حملہ آوروں کا ہدف ہدایت حسین نہیں بلکہ کوئی اور اہم مقام یا اجتماع تھا۔ ہدایت حسین کے ساتھ یہاں ان کی مڈ بھیر اتفاقیہ ہوئی ہے۔ جب یہ واقعہ ہو جاتا ہے تو دریا کے اس پار شمالی کنارے پر موجود طوطک کے دیگر کاشتکاروں کو پتہ چلتا ہے۔ وہ اور آس پاس دیگر لوگ بندوقیں لیکر ان کا پیچھا کرتے ہیں اور باسو لیوی چیک پوسٹ کی پشت یعنی مغرب میں موجود گہری کھائیوں میں ملزمان کو گھیر لیتے ہیں۔ ان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ شاہدین کے مطابق اسی دوران ایک حملہ آؤر زخمی ہو جاتا ہے۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایف سی کی چیک پوسٹ ہے۔ وہاں ان کی کمک کے لئے پہلے ہی سے ایک موٹر سائیکل اور بیس کے قریب لوگ موجود تھے۔ اس علاقے میں دونوں جانب سے فائرنگ کا زبردست تبادلہ ہوتا ہے۔ فائرنگ کے تبادلے میں طوریوں کے 3 مزید افراد زخمی ہو جاتے ہیں، جبکہ خودکش حملہ آوروں کی کمک کے لئے آنے والے مقبلان میں سے دو افراد ہلاک جبکہ دو مزید زخمی ہو جاتے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آوروں میں سے ایک فرد بھی ہلاک ہو جاتا ہے۔

خیال رہے کہ خود کش حملہ آوروں میں سے ایک کا تعلق افغان ملی اردو سے بتایا جاتا ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے سے کچھ ہی دیر پہلے غوز گڑھی کا ویلیج چیئرمین معز اللہ ایک پوسٹ کرتا ہے۔ جس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اس سانحے میں وہ پوری طرح ملوث ہے۔ خیال رہے کہ معز اللہ کو تین سال پہلے ایک خودکش حملہ آؤر نیز ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر مقبل نے اسی وقت حکومت کا راستہ روک کر اسے زبردستی چھڑایا تھا۔ اس کے علاوہ ویلیج کونسلر عمران مقبل نے بھی اس جرم کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اپنے آفیشل پیج پر پوسٹ کی ہے کہ ان کے مزارعین پر طوریوں نے حملہ کیا ہے۔ خودکش حملہ آوروں کو مزارعین قرار دیکر عمران مقبل نے انکے ساتھ اپنے خصوصی تعلق اور رشتہ داری کا اعتراف کیا ہے۔

دوسری جانب ایف سی کا کردار بھی اس حوالے سے اچھا نہیں بلکہ مشکوک رہا، کیونکہ ایف سی پھاٹک کے پاس کسی بھی موٹر سائیکل کو گزرنے سے پہلے اس کے اور اس کے مالک کے مکمل کوائف حاصل کئے جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس دوران اس مشکوک گاڑی، موٹر سائیکل اور ان خودکش حملہ آوروں کا راستہ روکنے یا ان کے کوائف حاصل کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اسی طرح واپسی پر حملہ آوروں اور ان کے سہولتکاروں کے ساتھ پورا تعاون کرکے انہوں نے مکمل جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قلعے میں ایف سی کی نفری مکس کرائی جائے، ورنہ علاقے میں امن کا خیال ہی محض خواب ہوگا، جس کا مطالبہ دو سال پہلے باسو و طوطک کے علاقے میں متعدد بارودی سرنگیں پھٹ جانے کے بعد اہلیان علاقہ نے تحریک حسینی اور انجمن حسینیہ کے توسط سے قومی سطح پر کیا تھا۔ اب بھی ان مقتدر قومی اداروں سے گزارش ہے کہ اس سمیت ایسجی تمام چیک پوسٹوں پر مکس نفری تعینات کروانے کی قومی سطح پر مہم چلائیں۔قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/c/IslamtimesurOfficial
خبر کا کوڈ : 1167396
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش