0
Sunday 20 Oct 2024 14:03

اسرائیلی سفاکیت کیخلاف مغرب میں تشویش

اسرائیلی سفاکیت کیخلاف مغرب میں تشویش
اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام اور لبنان کیخلاف سفاکیت پہ مبنی جنگ کے متعلق مڈل ایسٹ آئی نے لکھا ہے کہ موجودہ جنگ تمام فریقوں کے لیے بقا کی جنگ ہے، ایسی جنگ جس میں اسرائیل کی حکومت نادانستہ طور پر داخل ہو چکی ہے اور مجبور ہے کہ آخر تک اس جنگ میں رہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق قابض اسرائیلی حکومت اس وقت ایک کثیر الجہتی جنگ میں مصروف ہے اور بے رحمی سے غزہ اور لبنان میں عام شہریوں کو قتل کر کے جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ کچھ مغربی ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل طاقت کے بل بوتے پر اس صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے غیر یقینی کا شکار ہے۔ اسی تناظر میں برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی جنگ کو تمام فریقوں کے لیے بقا کی جنگ قرار دیتی ہے۔ ویب سائٹ  کے مطابق ہمیں یقین نہیں کہ اسرائیل اپنے اندازے بدلنے، رکنے اور دوبارہ غور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اندھادھند اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورتحال اسرائیل کی حکمت عملی کی کامیابی یا ناکامی کے لیے سنگین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔

مکمل بے حسی:
1972 میں ویتنام میں ایک 11 سالہ لڑکی کی تصویر جو جلتی ہوئی حالت میں برہنہ سڑک پر دوڑ رہی تھی، اتنی ہولناک تھی کہ اسے پولیٹزر پرائز ملا۔ جنگ کی ہولناکی ویتنام کی جنگ کا ایک علامتی تصور بن گیا تھا۔ آج غزہ اور لبنان میں جلتے ہوئے انسانوں، آگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے خیموں، جبالیہ پناہ گزین کیمپ کی گلیوں میں بکھری لاشوں اور ملبے سے اپنے چھوٹے بچوں کی بے جان لاشیں نکالتے ہوئے پس ماندگان کی بے شمار تصاویر موجود ہیں، لیکن کوئی انہیں شائع کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ غزہ یا لبنان میں اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ "جنگ کی ہولناکی" کی تصاویر نہ تو پولیٹزر پرائز کے لیے بھیجی جاتی ہیں اور نہ ہی ان پر امریکی صدور یا برطانوی وزرائے اعظم کی جانب سے مذمتی بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ میڈیا ایڈیٹرز خوف کے عالم میں ہیں۔ دوسری طرف اس بات کا دعویٰ کرنا کہ اسرائیل جان بوجھ کر غزہ میں بچوں کا قتل کر رہا ہے، "بہتان" کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اسرائیلی افواج جان بوجھ کر غزہ اور لبنان میں عورتوں اور بچوں کا قتل کرتی ہیں اور اسرائیل کے اندر عوامی جذبات اپنے فوجیوں کی اس قتل و غارت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ شمالی غزہ یا جنوبی لبنان کے لیے ایک حتمی حل کے بارے میں اسرائیل میں ہونے والی گفتگو میں "یہ کوئی قباحت نہیں ہے" اور "تباہی" جیسے الفاظ کے استعمال میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ احساس اسرائیل کے مشرق وسطیٰ کے ممتاز ماہر اوزی رابی کی طرف سے صاف صاف بیان کیا جاتا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ اور افریقی مطالعات کے شعبے کے سینئر پروفیسر نے پچھلے مہینے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ جو بھی وہاں (شمالی غزہ) رہے گا، وہ قانون کے تحت دہشت گرد کے طور پر جانا جائے گا اور انہیں 'قحط' یا 'تباہی' کا سامنا کرنا پڑے گا۔

صیہونی جرنیلوں کا ظالمانہ منصوبہ:
اسرائیلی تاریخ دان نہ صرف نسل کشی کے بارے میں گفتگو کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ قتل عام کو ہوا بھی دیتے ہیں۔ اوزی رابی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو علاقائی مسائل کو مغربی مخملی دستانوں کی حامل روش سے حل کرنے کے لئے کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ اسرائیل کے اقدامات کو مشرق وسطیٰ کے لئے زیادہ سختی سے اقدامات کرنے ہونگے۔ دوسری جانب، بینی موریس ہیں جو کبھی 1948 میں اسرائیل کی جانب سے کیے گئے مظالم کو بے نقاب کرنے والے "نئے تاریخ دان" تھے، یہ اب ایران پر جوہری حملے کا حامی ہے۔ یہ منصوبہ جس پر یہ تاریخ دان بحث کر رہے ہیں سابق فوجی جنرل گیورا ایلانڈ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔ ایلانڈ تسلیم کرتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیل کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ وہ اشارہ کرتے ہیں کہ ہر بار جب وہ کسی علاقے کو حماس کے جنگجوؤں سے صاف کرتے ہیں اور پیچھے ہٹتے ہیں تو حماس دوبارہ سر اٹھاتی ہے۔

تاہم، ایلانڈ کوئی امن کے حامی نہیں ہیں، ان کے مطابق اس مسئلے کا حل مذاکرات میں نہیں ہے۔ وہ شمالی غزہ کے 400،000 رہائشیوں کو بھوک یا موت کا انتخاب دے کر اس علاقے سے نکالنے کا خواہاں ہے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کا واحد طریقہ ہے۔ اس منصوبے کو فوج، کنیسٹ اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اس پر غور کر رہے ہیں۔ بہت سے اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ فوج پہلے ہی اس منصوبے کے کچھ حصے پر عمل کر رہی ہے۔ فوج نے تخلیہ کے احکامات جاری کیے ہیں، جنہیں منصوبے میں پہلے مرحلے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

نتساریم روڈ کا عنصر:
ایلانڈ کی محاصرے پر مبنی حکمت عملی کی کلید نتساریم روڈ ہے، جو غزہ کے شمال اور جنوب میں غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال کے دوران اس سڑک کی تعمیر کی ہے، اسے مختلف دفاعی اقدامات سے لیس کیا گیا ہے۔ کیپٹن شمعون اورکابی جو اس سڑک کی تعمیر کے ذمہ دار ہیں، نے پچھلے فروری میں اس کی تعمیر کے دوران کہا کہ اس کا ایک مقصد "شمال کی طرف آمد و رفت کو روکنا اور اس نقل و حرکت پر مکمل کنٹرول" حاصل کرنا ہے۔ غزہ سے واپس آنے والے تین اسرائیلی فوجیوں نے ہاآرتز اخبار کو بتایا کہ غزہ کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ جاری ہے۔ نتساریم روڈ پر تعینات ایک فوجی نے کہا کہ "اس کا مقصد شمالی نتساریم کے رہائشیوں کو غزہ کی پٹی کے جنوب میں منتقل ہونے کا موقع دینا ہے، مقررہ تاریخ کے بعد جو بھی شمال میں رہے گا اسے دشمن تصور کیا جائے گا اور وہ مارا جائے گا۔"

قتل و غارت کی مشین:
ویب سائیٹ کے مطابق یہاں بے مقصد قتل عام ہو رہا ہے۔ اس مہلک کاروائی میں مسلسل بمباری، اپاچی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فائرنگ اور جیٹ طیاروں کے ذریعے خیموں پر 2،000 پاؤنڈ بم پھینکے جا رہے ہیں۔ اسرائیلیوں نے اپنے جرائم کے لیے جدید ترین قتل کرنے والے آلات استعمال کیے ہیں، دھماکہ خیز روبوٹ جو لگاتار چھ گھر تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نئے انداز میں بارودی دھماکے اور عمارتوں کا بڑے پیمانے پر نقصان ماضی کے مقابلے میں مختلف ہے۔ "اس دنیاوی جہنم" میں رہنے والے ایک صحافی نے مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ کو بتایا کہ "بمباری ماضی میں دیکھی گئی چیزوں سے مختلف تھی، تخریب کا شور بے حد بلند تھا، کچھ ایسا جو ہم نے پہلے کبھی تجربہ اور مشاہدہ نہیں کیا تھا۔" بہر حال غزہ کے لوگ خاص طور پر جبالیہ میں اپنے گھروں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ سڑکوں پر مارے جانے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ جنوب کی طرف جائیں۔ یہاں تک کہ جنوبی غزہ کے لوگ بھی کہتے ہیں کہ "غزہ میں موت، جنوب کی موت سے بہتر ہے، کیونکہ موت ایک جیسی ہے، لیکن جنوب میں زندگی ناقابل برداشت اور شمال کی نسبت بہت مشکل ہے، لوگ خیموں میں رہتے ہیں اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔"

قتل عام کے لیے پر جوش صیہونی:
سائیٹ کے مطابق صیہونیوں کی جانب سے غزہ کے لوگوں کے روزمرہ قتل عام کی خوشی سے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ جیسے جیسے زیادہ فلسطینی غزہ چھوڑنے سے انکار کرتے ہیں، ایسے تبصرہ نگاروں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں جیسے الیاہو یوسیان، ایک مقبول اسرائیلی تجزیہ نگار جو دعویٰ کرتا ہے کہ غزہ میں کوئی "معصوم" شہری نہیں ہے۔ پروفیسر آوی بار لیو، جو بن گوریون یونیورسٹی میں اسرائیل اور صہیونیت کے تاریخ دان ہیں، نے پچھلے اکتوبر میں لکھا کہ فلسطینی "ایک ایسی قوم ہیں جو موت کی عبادت کرتی ہے اور قتل کا جھنڈا لہراتی ہے۔" رابی، بار لیو، موریس اور تمام جنرل اور فوجی جو شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں بالکل پر سکون ہیں۔

بقا کی جنگ:
مڈل ایسٹ آئی کی جانب سے رپورٹ اور تجزیئے کے آخری حصے میں نتیجہ دیا گیا ہے کہ اگر اسرائیل کا شمالی غزہ کے لیے منصوبہ کامیاب ہوتا ہے، تو اگلا ہدف جنوبی لبنان ہوگا۔ سابق سیکیورٹی مشیر شبات کا خیال ہے کہ رژیم کے موجودہ آپریشنز کے لیے اس کے پاس تین آپشنز ہیں:
1۔ اسرائیلی فوجی کنٹرول کے تحت ایک حفاظتی زون قائم کرنا۔
2۔ ایسا سیاسی معاہدہ پیش کرنا جو اسرائیل کو سرحد پر ایک نئے رژیم کے نفاذ کی اجازت دے۔
3۔ یا سرحدی علاقوں سے انخلا کرنا۔ 

بن شبات اس آپشن کو ترجیح دیتے ہیں کہ "اسرائیل خفیہ معلومات یعنی انٹیلیجنس اور آگ کے امتزاج کے ذریعے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک بفر زون قائم کرے گا۔ اس آپشن کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی عملی تشکیل کی نسبتاً کم قیمت ہے اور اسے بغیر کسی سنگین مسائل کے معمول کے مطابق انجام دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ پیغام جائیگا کہ 'اسرائیل کے خلاف دہشت گردی دشمن اور ان کی سرزمین کو نقصان کی طرف لے جائے گی۔'" وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جسے اسرائیلی قیادت نے بار بار اازمایا ہے کہ "اگر آپ چھوٹے اسرائیل پر حملہ کریں گے، تو آپ کو بڑے اسرائیل کا سامنا کرنا پڑے گا۔" جیسے ابتدائی اسرائیلی رہنماؤں، بین گوریون، لیوی اشکول، اور اسحاق رابن نے اسرائیل پر حملہ کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے زمینوں پر قبضے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں شکست اور زمین کے نقصان نے مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کے لیے راہ ہموار کی۔ ان ماہرین کا خٰال ہے کہ اسرایل کیخلاف مسلسل کاروئیواں کو روکنے کے لئے اسرائیل کو لبنان اور شام میں بھی یہی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہبی صہیونی تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یروشلم دمشق تک پھیلا ہوا ہے۔

جنگ کا دائمی سلسلہ:  
ان منصوبوں کا واحد نتیجہ یہ ہے کہ تمام عرب عوام ہر محاذ پر مستقل جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جو لوگ آج حاشیہ پر ہیں، کل وہ حاشیہ پر نہیں رہیں گے اور جنگ کے میدان میں داخل ہونے پر مجبور ہوں گے۔
1۔ فقط انتظار ہے تاکہ یہ جنگ شروع ہو،اردن بروقت اپنے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا۔ ایران اور حزب اللہ اپنے وجود کے لیے لڑیں گے۔
2۔ امریکہ نے 2001 میں طالبان کو ختم کرنے کے لیے کئی ہفتے صرف کیے اور 20 سال بعد طالبان نے امریکہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بغداد میں صدام حسین کا مجسمہ گرانے میں اپریل 2003 میں تین ہفتے لگے اور آٹھ سال بعد امریکہ کی جنگی مداخلت عراق میں شرمندگی اور ناکامی کے ساتھ ختم ہوئی۔
3۔ اسرائیل کے لئے یہ ریکارڈ خوشگوار نہیں ہیں، اسرائیل کی ممکنہ جامع جنگ افغانستان اور عراق میں جابرانہ حکومتوں کے خاتمے سے کہیں زیادہ ہوگی، یہ جنگ تمام فریقوں کے لیے بقا کی جنگ ہوگی۔ 
4۔ یہ جنگ جاری رہے گی۔ یہ خطرے کے خاتمے یا قبضے کے ساتھ ختم ہوگی یا پسپائی کے ساتھ؟ مجھے یقین نہیں ہے کہ اسرائیل اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے اور روکنے یا تجدید نظر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسرائیل اندھادھند اپنے ہی نابودی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1167423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش