0
Saturday 19 Oct 2024 12:11

چلے چلو کے وہ منزل ابھی نہیں آئی

چلے چلو کے وہ منزل ابھی نہیں آئی
تحریر: کاشف رضا

چلو چلو جلدی، اس سامنے والی عمارت میں چلو، وقت بہت کم ہے۔۔۔ ایک سپاہی بولا نہیں نہیں، مجھے لگتا ہے کہ ابھی خطرہ بہت زیادہ ہے، ہمیں فوراً نیچے سرنگ میں چلے جانا چاہیئے، ابھی ابھی ہم نے دشمن پر دو گرنیڈ پھینکے ہیں، ان کا ایک فوجی زخمی ہوا ہے، مرا نہیں، اگر اس کو کوئی بچانے کے لئے آیا تو وہ ہم تک با آسانی پہنچ جائیں گے۔۔۔ دوسرا سپاہی بولا۔ تیسرا آدمی جو دراصل ایک بڑا کمانڈر تھا، اس نے باقی دونوں سپاہیوں کی طرح اپنے چہرے پر فلسطینی کوفیہ کا نقاب پہن رکھا تھا، اس نے کچھ نہ بولا، لیکن اس کی بارعب آنکھیں سب کچھ کہنے کے لئے کافی تھیں، گویا پیچھنے ہٹنے یا چھپنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اس نے ایک تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر رکھی ہوئی اپنی کلاشنکوف اٹھائی، جس میں شائد اب بس کچھ ہی گولیاں بچی تھیں اور تیزی سے اپنی دائیں جانب کھنڈر عمارت میں داخل ہوگیا۔ باقی دو سپاہی بھی اس کے پیچھے پیچھے اسی عمارت میں داخل ہوگئے۔

وہ تینوں الگ الگ گوشے میں بیٹھے ہوئے اپنے باقی ماندہ اسلحے کا جائزہ لے رہے تھے۔ وہ پچھلے کئی گھنٹوں سے مسلسل دشمن پر گولیاں اور گرنیڈ برساتے رہے تھے۔ ایک کمانڈر کے بازو پر تو دشمن کی ایک گولی بھی پیوست ہوگئی تھی، لیکن دوسرے کمانڈر نے اپنی شرٹ پھاڑ کر کچھ کپڑا اس کے زخم پر باندھ دیا تھا، تاکہ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی موت واقع نہ ہو جائے۔ ایک سپاہی کے پاس کلاشنکوف کی صرف ایک میگزین بچی تھی۔ دوسرے کے پاس دو میگزین اور دو گرنیڈ تھے اور تیسرے نے جو ان کا کمانڈر تھا، اس نے اس وقت گولیاں گننا مناسب نہ سمجھا اور بس اپنی بجلی والی ٹیپ سے جوڑی گئی کلاشنکوف کو مسلسل دیکھے جارہا تھا، گویا کچھ سوچ رہا ہو۔ سردیوں کی آمد تھی، لیکن چونکہ یہ علاقہ ساحل سمندر پر واقع تھا، اس لئے سردی تو بس نام کی تھی، حبس کے شدید موسم اور مسلسل کئی گھنٹوں کی لڑائی نے ان سب کے جسموں کو پسینے سے شرابور کر دیا تھا۔

گلے خشک تھے اور اس کو تر کرنے کے لئے یہاں پانی ملنا تقریباً ناممکن تھا۔ لیکن اس وقت ان کا ذہن پانی کی شدت کو بھول چکا تھا اور وہ ان جانے خوف اور امید کی ملی جلی کیفیت سے نبرد آزما تھا۔ اچانک ان کا کمانڈر کھڑا ہوا اور کہنے لگا، اب ہمیں چلنا ہوگا۔ باقی دونوں سپاہیوں نے یک زبان ہوکر کہا: کہاں۔؟ اب یہاں سے پیچھے جانے کا راستہ نہیں ہے، اب مزید آگے ہی پیشقدمی کرنا ہوگی۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے، دشمن کے زیادہ سے زیادہ سپاہیوں کو موت کی آغوش میں سلا دیں۔۔۔ کمانڈر نے کہا۔ لیکن جناب، ہمارے پاس اسلحہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس وقت آگے جانا یعنی خود موت کے منہ میں جانا۔۔۔ ایک سپاہی بولا۔ اگر ابھی آگے نہیں جاسکتے تو پیچھے بھی نہیں جاسکتے، دشمن کے ڈرون مسلسل پورے علاقے میں گشت کر رہے ہیں، ہمیں ابھی کچھ دیر مزید یہاں رکنا چاہیئے۔۔۔ دوسرا سپاہی بولا۔ ابھی ان سب کے درمیان یہ مکالمہ چل ہی رہا تھا، اس سے پہلے کہ کوئی فیصلہ ہو پاتا، ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ہر طرف دھواں کی وجہ سے اندھیرا چھا گیا۔

جب کچھ دیر بعد اندھیرا چھٹا تو دیکھا کہ عمارت کی چھت زمین بوس ہوچکی تھی، کمانڈر پر دیوار کا ملبہ گرا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اس کا ایک ہاتھ شدید زخمی ہوچکا تھا اور خون فوارے کی طرح بہہ نکلا تھا۔ کمانڈر نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ اس کے دونوں سپاہی محفوظ تھے۔ اس نے ان کو کہا فوراً یہاں سے نکلو اور دونوں بالکل الگ الگ سمت میں چلے جاؤ، یہاں اور نہیں ٹہرا جاسکتا۔ کمانڈر، ہم کیسے آپ کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں یہاں سے؟۔۔۔ ایک سپاہی بولا۔ کمانڈر آپ شدید زخمی ہیں، ہم آپکو کندھے پر اٹھا کر لے چلتے ہیں۔۔۔ دوسرا سپاہی بولا۔ یہ وقت ان سب باتوں کا نہیں ہے، اگر مزید یہاں رکے تو ہم تینوں مر جائیں گے۔ فوراً یہاں سے نکلو۔ کمانڈر!!!! دونوں سپاہی ایک ساتھ بولے۔ یہ میرا حکم ہے، جاؤ جاؤ۔۔۔ کمانڈر نے کہا۔

لیکن کمانڈر کم از کم آپ پر سے ملبہ اٹھانے تو دیں۔۔۔ ایک سپاہی بولا۔ جاؤ۔۔۔ کمانڈر نے بپھری نگاہوں سے چلا کر کہا۔ دونوں سپاہی اپنے کمانڈر کے حکم کی نافرمانی نہیں کرنا چاہتے تھے، دونوں نے اپنی کلاشنکوف اٹھائی اور تیزی سے ملبے کے ڈھیر کو پھلانگتے ہوئے باہر نکل گئے۔ کمانڈر نے اپنے بائیں ہاتھ سے جو پہلے ہی مسلسل لڑائی کی وجہ سے تھک چکا تھا، اپنی ٹانگ پر سے ملبے کا ڈھیر ہٹانا شروع کر دیا۔ بہت تگ و دو کے بعد ٹانگ باہر تو آگئی، لیکن وہ جگہ جگہ سے چکنا چور ہوچکی تھی۔ کمانڈر نے بائیں بازو سے اس کی طاقت کی نسبت بہت بھاری جسم کو آگے گھسیٹنا شروع کر دیا تھا۔ جگہ جگہ نوکیلے پتھر پڑے ہوئے تھے،کمانڈر جس قدر آگے بڑھتا جاتا، اس کا جسم ان نوکیلے اور کھردرے پتھروں کے زخموں سے مزید چھلنی ہوتا جا رہا تھا، سامنے ایک صوفہ نظر آیا تو بڑی مشکل سے ایک طرف سے اس پر زور دیا اور گرتے پڑتے کسی طرح اس صوفے پر بیٹھ گیا۔

کمانڈر کا اسلحہ ناکارا ہوچکا تھا، اگر صحیح و سالم بھی ہوتا تو اس کو چلانے کے لئے بازو ہی ختم ہوچکا تھا۔ کمانڈر کچھ دیر اسی صوفے پر بیٹھا رہا کہ اچانک ایک کواڈ ڈرون کی آواز آنا شروع ہوگئی۔ کمانڈر نے اپنے اوسان پر مکمل قبضہ رکھا اور کوئی حرکت کرنے سے پرہیز کیا، گویا مرنے کی اداکاری کر رہا ہو۔ لیکن ڈرون آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھا اور کوفیہ لپیٹے چہرے کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ کمانڈر چاہتا تو اپنا نقاب ہٹا دیتا اور مرنے کی بجائے اسارت کو قبول کر لیتا، لیکن اب وہ منزل شہادت پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے آرزو تھی کی وہ بڑھاپے کی بیماریوں کی بجائے میدان جنگ میں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شیر کی موت مرنا چاہتا تھا۔ کوئی اسلحہ اس کے کام کا نہیں تھا، لیکن اس کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایک ٹانگ چکنا چور ہوچکی تھی، ایک بازو سے مسلسل خون رس رہا تھا، چہرے اور بدن پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے، لیکن جہاد ابھی جاری تھا۔

جیسے ہی ڈرون مزید قریب آیا، اس نے پاس ہی پڑی ہوئی ایک چھڑی اٹھائی اور بائیں بازو سے اس کی طرف اچھال دی، ڈرون محفوظ رہا، لیکن ڈرون کنٹرول کرنے والے کو معلوم ہوگیا کہ یہاں ایک سپاہی زندہ موجود ہے۔ اس نے جلدی سے اس عمارت کے قریب موجود ٹینک والے سے رابطہ کیا اور حملے کا فرمان جاری کر دیا۔ ٹینک نے اپنے سامنے پہلے سے ہی کھنڈر نما عمارت کی دوسری منزل کا نشانہ لیا اور گولہ برسا دیا۔ کئی دہائیوں تک اسارت کی سختی برداشت کرنے والا، مسلسل اور انتھک جہاد کرنے والا کمانڈر اب سکون کی ابدی نیند سوچکا تھا۔ دشمن اپنے سب سے بڑے حریف کو سرنگوں میں تلاش کر رہا تھا، لیکن وہ شیر شجاعت کا اسطورہ بنے محاذ جنگ کی اگلی صفوں میں ان کے سامنے پڑا تھا۔
خبر کا کوڈ : 1167389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش