0
Saturday 19 Oct 2024 20:35

اسرائیلی قیادت پر خوف کے سائے اور غزہ کا شیر

اسرائیلی قیادت پر خوف کے سائے اور غزہ کا شیر
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

فلسطین پچھلی آٹھ دہائیوں سے جل رہا ہے اور پورا مغرب امریکی قیادت میں مل کر اس پر آگ و بارود پھینک رہا ہے۔ اسرائیل کی نہ اتنی صلاحیت ہے اور نہ اتنی جرات ہے کہ وہ خطے کے سارے پڑوسیوں کے ساتھ الجھ سکے۔ اسرائیل آنے والے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ آرام دہ زندگی کے جھانسے میں آئے ہیں۔ امریکہ نے گارنٹی دی ہے اور وہ مسلسل اپنے مفاد میں دنیا بھر کے صیہونیوں کو استعمال کر رہا ہے۔ دنیا بھر سے یہودیت کے مذہبی نعروں پر لوگوں کو جمع کیا گیا ہے اور انہیں امریکی مفاد کے لیے میزائلوں اور ڈرونز کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ بہت سستے فوجی ہے، جو امریکہ کو تقریباً مفت میں دستیاب ہوئے ہیں۔ پچھلے چند روز میں کئی اہم واقعات ہوئے ہیں، جنہوں نے جنگ کی شکل تبدیل کر دی ہے۔ اسرائیلی فوجی محفوظ ترین چھاونی میں اپنی اپنی پناہ گاہوں میں تھے، کھانے کے لیے ڈائننگ ہال میں جیسے ہی وہ جمع ہوتے ہیں، حزب اللہ کے ڈرونز ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

یہ ان کے لیے قیامت خیز منظر تھا، ہر طرف افراتفری تھی، ہر طرف خون تھا۔ یہ لوگ غزہ اور لبنان میں آگ و خون برسا کر ایسے مناظر ٹی وی پر بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے اور چائے پیتے ہوئے انجوائے کرتے تھے۔ اب اسی جنگ کی حرارت ان کے ٹریننگ کیمپ تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد کی بہت سی ویڈیوز وائرل ہیں کہ جبری فوجی خدمت کے خلاف اسرائیلی سپاہی شدید احتجاج کر رہے ہیں اور چھاونی سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے فوجیوں میں خوف پیدا ہوگیا ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اس خبر کو نشر کیا کہ حزب اللہ کا ڈرون اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ سے ٹکرایا ہے اور بڑے دھماکے کی آواز سنی گئی ہے۔ یہ ڈرون جنوبی حیفہ کے قصبے قیصریہ میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی رہائش گاہ سے ٹکرایا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈرون نے براہِ راست اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد حزب اللہ نے میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ لبنان سے شمالی اسرائیل پر گذشتہ ایک گھنٹے میں تقریباً 55 میزائل داغے گئے، جو بالائی، مغربی اور وسطی گلیلی کے علاقوں کے کئی شہروں اور قصبوں میں میں گرے۔

یہ دونوں معمولی واقعات نہیں ہیں۔ یہ دشمن کے حوصلے پست کرنے والے واقعات ہیں۔ یاد رکھیں کہ جنگ کو طاقت کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ جب مدمقابل کو اپنی جان کا خطرہ ہوگا تو ہی وہ لڑائی سے باز آئے گا۔ اگر اسے یہ یقین ہو کہ مجھے تو معمولی خراشیں بھی نہیں آنیں اور دشمن کی لاشوں کے پشتوں پر پشتے لگ جانے ہیں تو وہ کبھی لڑائی سے نہیں رکے گا۔ اسرائیلی اور فلسطین دشمن سارا میڈیا خوشیاں منا رہا تھا کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے گویا انہوں نے مزاحمت کو ہی ختم کر دیا۔ دشمن کچھ کام اپنی برتری کے اظہار کے لیے کرتا ہے، مگر اللہ اس سے اپنا کام لے لیتا ہے۔ جس طرح اسرائیلیوں نے تحقیر کرنے کے لیے شیر غزہ کی شہادت کی ویڈیو ریلیز کہ وہ چھڑی سے بھی ڈرون کو مار رہا ہے، یہ کروڑوں لوگوں کو متاثر کر گئی۔ اس کا چھڑی پھینکنا، ظلم و جبر سے نفرت کی وہ نسل تربیت کرے گا، جو اسرائیلیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔ اس ویڈیو اور ان سے برآمد ہونے والے سامان نے اس مجاہد کی بے لوث قیادت اور وطن سے عشق نے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔

ایک عرب صحافی نے ٹوئٹر پر لکھا: "کل سے وہ ویڈیوز جتنی بار دیکھتا ہوں، دل مٹھی میں آجاتا ہے۔ شدید کرب کی کیفیت ہے۔ واقعی کیا شیر آدمی تھا، کیسی دلیری، جرات اور بے پناہ عزیمت سے وہ لڑا اور سرخرو ہوا۔ ایسی استقامت، بے خوفی اور بہادری۔ قدیم داستانوں کی یاد تازہ ہوگئی۔" سوال مگر وہی ہے کہ ایسے جانباز کو کیا عہد ملا، کیا بدبخت پڑوسی میسر ہوئے اور کیسی زوال زدہ، تھکی ہوئی امہ ملی۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پہ کمال افسوس ہے۔ ہم نوے سال سے گا رہے ہیں ”صلاح الدین کہاں ہے”، جب وہ آیا، تو ہم نے اسے ٹینکوں اور طیاروں کے سامنے چھڑی کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر جمیل اصغر جامی فلسطین پر لکھتے ہیں اور کمال لکھتے ہیں، فرماتے ہیں: اسرائیل نواز مغربی تجزیہ کار اسرائیل کی طرف سے شہید کے آخری لمحات کی فوٹیج جاری کرنے کو ایک ہمالیائی حجم کی غلطی (a mistake of Himalayan proportions) قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ فوٹیج دہائیوں تک مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرے گی۔

واضح رہے کہ اسرائیلی میڈیا نے یہ فوٹیج ایک تحقیر اور تضحیک کے طور پر جاری کی تھی۔ لیکن قدرت اپنے نظام کے تحت چلتی ہے۔ امریکی صحافی ڈان کون دہائی دے رہے ہیں کہ یہ ویڈیو ریلیز کرکے کیا کر دیا۔؟ اس کے الفاظ ہیں: In his death, he became a Legend اس کا آسان اردو ترجمہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ جسے تم نے مارا، وہ امر ہوگیا ہے۔ اب وہ مینگو باردی ہے۔ سعودی اخبار عکاظ نے سرخی لگائی کہ "حماس بغیر سر کے اور اسرائیل نے سنوار کو ہنیہ کے پاس بھیج دیا!۔" انا للہ و انال الیہ راجعون۔ سعودی اخبار کی سرخی: اسی لئے تیونس کے معروف قلمکار اور صحافی نے ٹویٹ کیا تھا! شیعہ نصراللہ شہید ہوئے اور سعودیوں نے خوشی منائی، سنی یحیٰی سنوار شہید ہوئے اور سعودیوں نے پھر خوشی منائی۔ تو بتاؤ تمہارے باپ کا مذہب کیا ہے۔؟ یقیناً خیبر کے یہودیوں سے ہوسکتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔؟

رہبر معظم کا یحییٰ سنوار کی شہادت پر دیا گیا پیغام امید بھی ہے اور مزاحمتی تحریک کی درست عکاسی بھی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: حماس لیڈر یحییٰ سنوار کی شہادت سے "مزاحمت کا محور" ختم نہیں ہوگا اور حماس زندہ رہے گی۔" ان کا نقصان بلاشبہ مزاحمت کے محور کے لیے تکلیف دہ ہے۔ لیکن یہ محاذ اہم شخصیات کی شہادت کے ساتھ آگے بڑھنا بند نہیں ہوا ہے۔" شیخ نعیم قاسم نے کہا تھا کہ اب جنگ کے ضابطے تبدیل ہو جائیں گے، اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ حزب اللہ جنگ کو شمال اسرائیل کی طرف پھیلا رہی ہے۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ وہ دباو کے ذریعے حزب اللہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گا۔ یہ حزب اللہ اور حماس کو پیسوں پر لڑنے والی افواج سمجھ کر حکمت عملی بناتے ہیں۔ جب فوج کا کوئی جنرل یا سربراہ مارا جاتا ہے تو وہ میدان چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
خبر کا کوڈ : 1167421
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش