تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
ب۔ قیامِ پاکستان کے بعد کا نظامِ تعلیم
اگست 1947ء میں پاکستان قائم ہوا۔ اس وقت ملک میں لارڈ میکالے کا مجوزه نظام تعلیم نافذ تھا۔ اس کی تعلیمی بنیاد اس قدر کمزور تھی کہ ملک میں تعلیمی نظام کا ایک متنوع ڈھانچہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بنا پر قیامِ پاکستان کے بعد نہ صرف تعلیمی نظام کو وسعت دینے کی ضرورت تھی بلکہ پورے تعلیمی نظام کو ملک کی سماجی، ثقافتی اور معاشی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی بھی ضرورت تھی۔ چنانچہ پہلی پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس 1947ء میں بلائی گئی، جس نے نظام تعلیم کو ایک سمت دی۔ کانفرنس نے ملک کے تقاضوں اور نظریات کے مطابق نصاب پر نظرثانی کی سفارش کی۔ کمیشن نے پرائمری سطح پر نصاب کی ڈیزائننگ کی تجویز پیش کی، تاکہ پڑھنے، لکھنے اور ریاضی میں بنیادی مہارتوں کو فروغ دینے، حب الوطنی کا اعلیٰ احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی پسند اور بنیادی لازمی مضامین اور اضافی مضامین پر توجہ مرکوز کی جائے۔ کمیشن نے ٹیکسٹ بک کی ترقی کو منظم کرنے کے لیے ملک میں ٹیکسٹ بک بورڈز کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔ کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے لیے ایک نصاب کمیٹی کا تقرر کیا گیا۔ کمیٹی نے پرائمری تعلیم کے مقاصد کی تجویز پیش کی، جس میں مڈل اسٹیج کو ثانوی تعلیم کا حصہ قرار دیا اور ثانوی سطح پر نصاب کو متنوع بنایا۔
قیام پاکستان کے تین ماه بعد نومبر 1947ء میں پاکستان کے نظام تعلیم کے لیے پہلی آل پاکستان ایجوکیشن کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس وقت کے وزیر تعلیم فضل الرحمن نے “روحانی، سماجی اور پیشہ ورانہ” نکات پر مبنی تین تعلیمی اصلاحات تجویز کیں۔ اسی پہلی کانفرنس میں ہی ذریعہ تعلیم بننے والی زبان کی پالیسی بھی طے کی گئی اور اس کانفرنس میں یہ واضح کیا گیا کہ اردو زبان ہی ذریعہ تعلیم ہوگی اور اردو کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ 1948ء میں ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن نے اردو کمیٹی قائم کی۔ 1950ء میں کمیٹی نے یہ تجویز دی کہ مغربی پاکستان کے اسکولوں میں اردو کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اپنایا جائے۔ 1952ء میں ایک چھ سالہ تعلیمی منصوبہ بنایا گیا، جو بری طرح ناکام ہوا۔ کمیشن برائے قومی تعلیم، 1959ء نے نصاب کی ترقی کے حوالے سے صورتحال کا تجزیہ کیا اور ملک کی سماجی اور اقتصادی ضروریات کے ساتھ ساتھ انفرادی مفادات کی روشنی میں نصاب پر نظرثانی کی سفارش کی۔ 1959ء میں نیشنل ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا اور ایک تعلیمی قانون کی منظوری دی گئی۔
اس قانون نے دسویں جماعت تک کے تمام بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کو ضروری قرار دیا اور اس کی سفارشات میں تعلیم کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف “شخصیّت سازی“ قرار دیا گیا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ "تعلیم کا بہترین نتیجہ تب ملتا ہے، جب پرائمری سطح پر مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔" 1959ء کی تعلیمی پالیسی لوگوں کی ذمہ داریوں، حکومت، قوم سازی، دستی کام اور تعلیم کے حوالے سے لوگوں کے ناپسندیده رویوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ 1959ء کی ایجوکیشن پالیسی میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پرائمری اسکول کی عمر کے پچاس فیصد سے بھی کم بچے اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔ اس پالیسی نے بچوں کی شرحِ خواندگی بڑھانے کیلئے آٹھ سال کی لازمی تعلیم کی سفارش کی۔ بالغوں کی تعلیم کے حوالے سے، رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ "پچھلے تیس سالوں کے دوران ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بہت سی مہمیں چلائی گئیں، لیکن اس کے بہت ہی محدود نتائج برآمد ہوئے۔
1970ء میں پاکستان کے صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے وزارت تعلیم کا قلمدان اپنے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ائیر مارشل نور خان کو سونپا۔ ائیر مارشل نور خان نے ایک نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی، جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ “نظریاتی تربیت“ پر زور دیا گیا۔ سائنس کی تعلیم ابتدائی کلاسوں سے شروع کرنے کی تجویز دی گئی اور سائنسی تعلیم سے متعلقہ مسائل کی دیکھ بھال کرنے کی بات کی گئی۔ نور خان نے جنوری 1970ء میں ’’تجاویز برائے تعلیمی پالیسی‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی اور یہی رپورٹ 1970ء کی قومی تعلیمی پالیسی ہے۔ اس پالیسی میں بلاوقفہ اور مسلسل سائنسی تدریسی پلانٹس اور سائنسی تعلیم کا مشوره دیا گیا۔ تعلیمی پالیسی 1972ء نے ملک کی بدلتی ہوئی سماجی اور معاشی ضروریات کو ہر چیز پر مقدّم رکھا۔ اس پالیسی نے نصاب تعلیم کو ملک کے نظریئے، قومی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کے حصول کے لیے تمام وفاقی اکائیوں سے ہم آہنگی کرنے اور ایک جامع قومی نصاب کے نفاذ کی سفارش کی۔
اہداف کے حصول کے لیے ضروری انفراسٹرکچر بنائے بغیر، 1972ء میں، پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مندرجہ ذیل چار اہداف کے ساتھ قومی تعلیمی پالیسی پیش کی: ۱۔ نظریہ پاکستان ۲۔ تعلیم سب کیلئے ۳۔ تعلیم میں مساوات ۳۔ کردار کی تعمیر۔ اس تعلیمی پالیسی نے ملک کی بدلتی ہوئی سماجی اور معاشی ضروریات سے متعلق نصاب کو ملک کے نظریئے سے ہم آہنگ کرنے کی سفارش کی۔ قومی ہم آہنگی اور ہم آہنگی کے حصول کے لیے پالیسی نے تمام وفاقی اکائیوں میں قومی نصاب کے نفاذ کی بھی تجویز دی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ سارے خواب ادھورے ہی ره گئے اور آخرِکار 1979ء میں جہادِ افغانستان نے منطقے کی صورتحال اور ہماری تعلیمی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا۔ قومی تعلیمی پالیسی اور عمل درآمد پروگرام 1979ء نے نصاب پر نظرثانی، جدیدیت اور اسلامائزیشن کی سفارش کی، تاکہ اسے اسلامی نظریات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ آئیے اب اپنے نظامِ تعلیم پر جہادِ افغانستان کے اثرات کا ایک جائزه لیتے ہیں۔
نظامِ تعلیم پر جہادِ افغانستان کے اثرات کا جائزه
جہادِ افغانستان کے پیشِ نظر 1979ء میں، ایک نئی تعلیمی پالیسی بنائی گئی۔ اس نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد ملک و قوم کی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے جہادِ افغانستان کیلئے نظامِ تعلیم کی اسلامائزیشن کرنا تھا۔ اس کی جزئیات میں “اسلام سے وفاداری کو فروغ دینا، امت کا تصور پیدا کرنا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا” قرار دیا گیا۔ اس قومی تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کیلئے نصاب کو اسلامی نظریات میں ڈھالنے کیلئے اس پر نظرثانی، جدید کاری اور اسلامائزیشن کی تجویز دی گئی۔ اس پالیسی کے مطابق مذکوره اہداف کے حصول کے لیے نصاب میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ حکومت نے متعدد نئے اسکولوں خصوصاً دینی مدارس کے قیام کی اجازت دی اور نجی شعبے کو بھی انگریزی میڈیم اور نصاب میں تبدیلیاں کرنے کی اجازت دی۔ جب یہ ہوا تو اُس وقت لارڈ میکالے کے تیار شده نوآبادیاتی نظام تعلیم میں مذہبی شدّت پسندی بھی داخل ہوگئی۔ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب افغانستان میں روس کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان سے افرادی قوت چاہتے تھے۔ اس لیے تعلیم کو نام نہاد جہاد پر قربان کرکے پورے تعلیمی نظام اور پاکستانی معاشرے کو مذہبی انتہاء پسندی کے حوالے کر دیا گیا۔
1979ء کی تعلیمی پالیسی میں لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم اور شدّت پسندی کا جو ملاپ شروع کیا گیا، اُس کا عمل ابھی تک جاری ہے اور اُس کے ثمرات بھی مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ ماضی میں ہمارے تعلیمی ادارے صرف انگریزوں کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مخصوص افراد تیار کرتے تھے، اب انہی تعلیمی اداروں سے امریکہ کی ضرورت بھی پوری جا رہی ہے۔ اس کیلئے تعلیمی اداروں میں شِدّت پسند نوجوان بھی مسلسل تیار ہو رہے ہیں۔ 1992ء میں، بظاہر نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا، لیکن صرف نام کی حد تک۔ اس میں بھی حسبِ سابق اسلام کے اصولوں کے مطابق جدید خطوط پر تعلیمی نظام تشکیل دینے، روشن خیال مسلم معاشره اور تعلیمی معیار پر نظرثانی کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد لارڈ میکالے اور مذہبی شدّت پسندانہ نظریات کو باہم مخلوط کرکے پہلے سے بہتر انداز میں پاکستان کے تعلیمی نظام پر ٹھونسنا تھا۔
قومی تعلیمی پالیسی 1998ء میں تعلیمی نظام کو متنوع بنانے، نصاب کی ترقی کو ایک مسلسل عمل بنانے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو مقبول بنانے اور قرآن کی تعلیم اور اسلامی اصولوں کو نصاب کا لازمی حصہ بنانے پر زور دیا گیا۔ یعنی اس میں حسبِ سابق سلسلے کی تقویّت کے علاوه کچھ نیا نہیں ہوا۔ 2009ء (NEP ۲۰۰۹) میں ایک نئی ایجوکیشن پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اس میں افراد اور معاشرے کی سماجی، سیاسی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجوده تعلیمی نظام کو بحال کرنے کی تجویز دی گئی اور ان نظریات کے تحفظ پر زور دیا گیا، جن کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہ تعلیمی پالیسی “سب کیلئے تعلیم، معیاری تعلیم، خواتین کی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی” پر مرکوز تھی۔ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء میں افراد اور معاشرے کی سماجی، سیاسی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجوده تعلیمی نظام کو ہی از سرِ نو زنده کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
اس پالیسی میں نظریات کے تحفظ پر زور دیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ پالیسی نے ایک مشترکہ نصابی فریم ورک کی ترقی کی بھی سفارش کی، جسے سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں تعلیمی اداروں پر لاگو کیا جائے۔ پالیسی میں حکومت سے مزید سفارش کی گئی کہ وه مشترکہ معیارات، معیار اور ریگولیٹری نظام کے ذریعے سرکاری اور نجی شعبوں کو ہم آہنگی میں لانے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ تمام اصطلاحات بظاہر بہت اچھی تھیں، لیکن الحاد اور مذہبی انتہاء پسندی کے نقطہ نظر پر مبنی تھیں۔ 2017ء میں 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی پر نظرثانی کی گئی۔ درحقیقت اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ منیجمنٹ کے زیر اہتمام قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے نفاذ کے تحقیقی مطالعے کے نتائج کے مطابق تعلیمی پالیسی 2009ء کو عملی طور پر روک دیا گیا تھا۔ دوسری طرف کوئی بھی صوبہ یا وفاق اس پالیسی کے مطابق کوئی جامع منصوبہ نہیں بنا سکا، جس کے نتیجے میں بہت اہم خلا پیدا ہوا۔ اس خلا کو پر کرنے کیلئے NEP 2009 کے تحت ایک فورم بنایا گیا، جس نے 2015ء میں مظفر آباد میں منعقده اپنے اجلاس میں متفقہ طور پر قومی تعلیمی پالیسی پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا۔
تعلیمی پالیسی کی تاریخ میں پہلی بار 2017ء میں دینی مدارس پر ایک مکمل باب اور اسی طرح بوائز سکاؤٹس اور گرلز گائیڈز کے ذریعے گائیڈنس، کونسلنگ، کردار سازی اور غیر نصابی تعلیم کا ایک الگ باب تعلیمی پالیسی میں شامل کیا گیا۔ 2017ء کی پالیسی کا ایک اہم مقصد پاکستان میں پبلک سیکٹر کالجز اور یونیورسٹیز کو بڑھانا تھا۔ مزید برآں، یہ بھی تجویز کیا گیا کہ نجی شعبے کی جامعات کو ان کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور پاکستان بھر میں ورچوئل ایجوکیشن کو بڑھانے کے لیے تعاون کیا جائے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پاکستان بھر میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مزید ذیلی کیمپس قائم کیے جائیں۔ اس خصوصی پالیسی نے خصوصی تعلیم پر بھی توجہ دی اور 2025ء تک ۵۰% خصوصی بچوں کے اندراج پر اتفاق کیا گیا اور پاکستان بھر میں خصوصی تعلیم کے لیے ۵% علیحده بجٹ بھی مختص کیا گیا۔
2019ء میں حکومت نے نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک غیر منافع بخش کاروبار ہے؛ نجی تعلیمی اداروں کی ملکیت صرف ماہرین تعلیم کو دی جائے گی اور نجی ادارے حکومت کی طرف سے مقرر کرده قواعد و ضوابط پر عمل کریں گے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کی روک تھام کا نکتہ اٹھایا گیا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ دینی مدارس کو اس دھارے میں لانے کیلئے حکومت کمیٹیاں بنائے گی۔ اس پالیسی میں نئے قومی یکساں نصاب کی گونج سنائی دی اور کہا گیا کہ نئے نصاب کی تیاری میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات، اسکالرز، دانشوروں، ماہرین تعلیم کو شامل کیا جائے گا۔ ان کے علاوه صدر مملکت، وزیراعظم اور چاروں صوبوں میں سے ہر صوبے کے وزیر تعلیم کی رائے سے یہ پالیسی بنائی گئی۔ وفاقی وزیر تعلیم کی زیر صدارت بعد ازاں یہ اجلاس منعقد ہوئے۔ حکومت نے سارے ملک کیلئے یکساں نصاب تیار کرایا اور اسے تین مراحل میں نافذ کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے تحت 2021۔2022ء میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک، 2022۔2023ء میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک اور ۹ویں جماعت سے ۱۲ویں جماعت تک مارچ 2023ء تک یکساں نصاب نافذ کرنا طے پایا۔