0
Friday 21 Jun 2024 10:59

علامہ غلام عباس نجفی مرحوم

علامہ غلام عباس نجفی مرحوم
تحریر: سید نثار علی ترمذی

خاندانی پس منظر
آپ کا خاندان
آپ بنو تمیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے آباء و اجداد بصرہ سے ہجرت کرکے دیبل سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور دیبل سے ملتان تک کے علاقوں میں آباد ہیں۔ جو کہ مقامی زبان میں تمیم سے تھہیم بولا جانے لگا۔ آپ کے آباء و واجداد پتراکی موضع میں آباد ہوئے۔ جہاں سے آباؤ اجداد میں سے بہت نامور شخصیات نے دنیا پر اپنی علمی برتری کی وجہ سے حکومت کی ہے۔ جس میں سے نواب سعد اللہ خان تھہیم وزیراعظم ہند در عہد شاہ جہاں سلطنت مغلیہ کے وزیراعظم رہے اور اورنگزیب عالمگیر کے استاد بھی ریے۔ نواب صاحب نے بھی صفوی بادشاہوں کے شاہ جہاں پر ہونے والے سوالات کے جوابات دیئے اور فتاویٰ عالمگیری نامی فقہ حنفی کی کتاب آپ کی زیر نگرانی لکھی گئی اور آپ کے بیٹے نواب لطف اللہ خان دہلی کے گورنر رہے ۔دونوں باپ بیٹا لال قلعہ دہلی کے شاہی قبرستان میں دفن ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے جبر کے خلاف لڑتے ہوئے دادا نواب عظمت اللہ خان تھہیم نے پتراکی سے ترک سکونت کرکے جھنگ میں زیر زمین زندگی اختیار کی، جن کی قبور جھنگ میں ہیں۔ تاریخ نے ایک خوبصورت موڑ لیا اور اسی نسل میں میاں حسن خان اور میاں حسین خان نے مذہب اہل بیت علیھم السلام اختیار کیا اور ان کی تیسری نسل میں سے مکتب اہلبیت علیھم السلام کے مبلغ غلام عباس نجفی کی ولادت ہوئی۔

مولانا غلام عباس نجفی کے حالات زندگی
مولانا غلام عباس نجفی 3 جنوری 1947ء کو تھیم خاندان کے متوسط طبقے کے زمین دار میاں عنایت علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کی ناز و نعم سے پرورشِ کی گئی۔ آپ نے 1966ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1970ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کیا۔ 1972 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے عربی کیا اور اس سے قبل فاضل عربی کا امتحان پاس کرچکے تھے۔ مولانا عبدالرشید فاضل دیوبند آپ کے عربی ادب کے استاد تھے۔ آپ کی دینی و دنیاوی تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ دینی تعلیم کے لئے مولانا سید حسن زیدی مرحوم آپ کے پہلے استاد تھے۔ اس کے بعد آپ نے مولانا سید محمد عارف صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ حسینیہ اور علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم سے تعلیم مکمل کی۔

نجف اشرف میں آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں تقریباً چھ ماہ شرکت کی، کیونکہ اقامہ ہی چھ ماہ کا تھا، جسے عراقی حکومت نے مزید توسیع نہ دی اور اس کے بعد قم المقدس، ایران میں آیت اللہ شھاب الدین مرعشی نجفی کے درس خارج میں ایک سال شریک ہوئے۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب قبلہ میاں عنایت علی مرحوم نے واپس بلا لیا اور دوبارہ نہ جاسکے۔ خطابت میں آپ کے استاد قائد ملت جعفریہ سید محمد دہلوی، خطیب اعظم تھے۔ آپ نے تا دم آخر اساتذہ قم و نجف کی تحقیقات و تالیفات سے استفادے کا سلسلہ جاری رکھا اور ایک بہترین ذاتی لائبریری تشکیل دی، جو کہ جدید و قدیم تحقیقات کا بہترین مجموعہ ہے، جس میں موجود کتب کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے۔ آپ کا قم و نجف میں استفادے کا سلسلہ آخر تک جاری رہا اور آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی سے استفادہ بھی جاری رہا۔ آپ پنجابی اور اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی کافی روانی سے بولتے تھے۔

خدمات
اتحاد بین المسلمین
آپ ملک و ملت کے پرخلوص خیرخواہ اور اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران اہل اسلام کے مشترکہ جلسوں سے آپ کے خطبات اب تک اہل علاقہ یاد کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان جلسوں میں سٹیج سیکرٹری حق نواز جھنگوی ہوتے تھے۔ آپ اتحاد امت کو ہی ملک و ملت کے استحکام کی ضمانت قرار دیتے تھے۔جھنگ میں شیعہ سنی اتحاد کو عملی صورت میں برقرار رکھنا اور اس اتحاد سے ناصبیت و تکفیریت کو ہر محاذ پر شکست دی۔ آپ کی دوررس فکر کا نتیجہ ہے۔

اتحاد بین المومنین
آپ نے اتحاد بین المومنین کے لئے بھی عملی طور پر اقدام کئے۔ ملت جعفریہ پاکستان پر مشکل وقت آیا اور قوم دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی تھی۔ شیخی و خالصی نام پر باہم دست و گریباں ہوگئی تو اس وقت علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم اور علامہ شبیھہ الحسنین محمدی مرحوم کی مشاورت سے اتحاد کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اس بے مثال اجتماع کی میزبانی کا شرف آپ کے حصے میں آیا۔ جھنگ میں ہر دو فریقین کے علماء کرام کو ایک منبر پر بٹھا کر ملت کو اتحاد کی نوید سنائی گئی اور علماء کرام کے مابین تحریری معاہدہ لکھا گیا، جو کہ معاہدہ جھنگ کہلاتا ہے اور ہر دور میں ملت کے اتحاد کیلئے قابل عمل نمونہ ہے۔

مجالس و منبر
آپ ایک بہترین اور بے لوث خطیب، عالی قدر مدرس اور بابصیرت رہنماء تھے۔ آپ نے امریکہ، انگلینڈ، عرب امارات، قطر اور مسقط سمیت دنیا بھر کے دینی مراکز میں آپ کے تبلیغی خطاب اہل ایمان کے لئے سرمایہ ہیں۔ اس سلسلہ خطابت میں آپ کو جو نذر نیاز ملتی، واپسی پر جھنگ کے یتامیٰ اور مساکین میں تقسیم کر دیتے۔ آپ نے ساری زندگی کوئی ذاتی جائیداد نہیں بنائی اور نہ ہی کوئی بینک بیلنس چھوڑا۔ سب کچھ مساجد، مدارس اور غرباء کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا۔ آپ نے ایک طویل عرصہ زیدی ہاؤس، شاہ جمال، لاہور میں عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔

مساجد کی تعمیر
آپ نے مساجد تعمیر کروائیں اور مومنین میں تعمیر مساجد کی تحریک پیدا کی، جس کے نتیجے میں آج جھنگ صدر میں اہل تشیع کی اذانوں کی آواز شہر کی فضا پر چھا جاتی ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے اسلاف امام باگارہوں کے ساتھ مساجد بھی تعمیر کرتے تو آج عددی برتری کے نتائج مختلف ہوتے۔

دفاع مذہب اہلبیت
جب جھنگ میں مذہب اہل بیت (ع) کے خلاف باقاعدہ تکفیری پروپیگنڈہ کا آغاز کیا گیا اور ہر طرح کے وسائل اور لوازمات کو ملت جعفریہ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ کبھی فتویٰ کفر جاری کیا جاتا، کبھی پمفلٹ، کبھی اشتہارات، کبھی جلسے، کبھی عدالتوں میں محاذ لگائے جاتے تھے۔ کبھی مناظرہ کے چیلنج دیئے جانے لگے تو مکتب و ملت کی حفاظت کیلئے آپ نے دشمن کے خلاف تنہا قیام کیا اور اس علمی لڑائی کے بیس سالہ دور میں دشمن کو ہر محاذ پر شکست دی۔ فتویٰ کے جواب میں فتویٰ، پمفلٹ کے جواب میں پمفلٹ، اشتہارات کے جواب میں اشتہارات، عدالتوں میں ناقابل تردید حوالہ جات پیش کرکے اور مناظروں کے چیلنج قبول کرکے تکفیریت کے مکر و فریب اور جھوٹ کو بے اثر کرکے رکھ دیا اور تکفیری قیادت جب ضلعی یا صوبائی امن کمیٹی کے اجلاس میں آپ کے سامنے بیٹھتی تو انھیں بات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔۔۔ جب جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ تشکیل دی تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ نے آپ کو مجلس شوریٰ کی رکنیت کی پیشکش کی، جس سے آپ نے انکار کر دیا۔۔۔

تبلیغ
آپ نے ملت کی تعمیر و ترقی اور مکتب کی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی، کافی افراد نے آپ کے ہاتھوں پر مذہب اہلبیت علیھم السلام قبول کیا۔
قومی خدمات
اس کے علاوہ قومی معاملات میں آپ صف اول میں خدمات سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد کنونشن ہو یا دیگر قومی معاملات میں آپ علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ مقامہ کے بااعتماد ساتھی رہے۔ قائد ملت علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد جب قوم دو قیادتوں میں تقسیم ہوگئی تو آپ نے ملت کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ قائد شہید سید عارف حسین الحسینی نے سفید کاغذ پر دستخط کرکے دے دیئے اور کہا آپ جو فیصلہ لکھ دیں، مجھے منظور ہے۔ مگر علامہ سید حامد علی موسوی قبلہ نے شرط رکھی کہ حسینی صاحب ہماری تحریک میں ساتھ دیں۔ بدقسمتی سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، جس کا آپ کو افسوس رہا۔۔۔ آپ ہر حال میں مکتب و ملت کے اتحاد و سربلندی کیلئے کوشاں رہے۔

قلمی خدمات
1۔ حدیث غدیر در شان جناب امیر علیہ السلام۔ 2۔ والدین اور اولاد کے حقوق۔ 3۔ جواب فتویٰ۔ 4۔ اور بہت سا تحریری سرمایہ۔
انجمن حسینہ جھنگ کی بحالی
جھنگ کے بڑے بڑے زمینداروں نے ملت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک یتیم خانے اور سکول کی بنیاد ڈالی۔ جس میں جھنگ کے سیال، شاہ جیونہ اور رجوعہ سادات کے سادات شامل تھے۔ انہوں نے اس کے لیے پچیس مربع زمین وقف کی۔ شہر کی مرکزی جگہ پر چار ایکٹر سے زائد زمین پر یتم خانہ، جامعہ حسینیہ مدرسہ اور سکول قائم کیا۔ یہ سکول بھٹو دور میں عمارت سمیت قومی تحویل میں لے لیا گیا۔ مدرسہ اور یتم خانہ بدستور انجمن حسینہ جھنگ کے زیراہتمام چلتے رہے۔ اس مدرسے نے کئی معروف علماء پیدا کیے۔ جب بزرگ زعماء ملت یہ دنیا چھوڑ گئے تو ان کی اولاد نے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ زمین آدھی انجمن کے نام رہ گئی۔ اس کو ملک بھر میں مرکزی مقام حاصل تھا۔ قائد ملت علامہ سید محمد دہلوی اس کے سرپرست مقرر ہوئے۔ سالانہ جلسہ منعقد ہوتا تھا۔ جس میں ملک بھر سے علماء، زعماء اور دانشور شریک ہوتے تھے۔ حکومت نے جب اس کے مالی معاملات میں خرد برد دیکھی تو اس پر قبضہ کرکے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ علامہ نجفی صاحب نے عدالتی و انتظامی کارروائی و جدوجہد کے ذریعے بحال کروایا۔

تدریس
آپ دو سال سے زائد جامعہ حسینیہ جھنگ کے پرنسپل رہے۔
اولاد
بیٹا: مشبر عباس
بیٹی: نرجس عباس

انتقال پر ملال
 آخرکار 21 جون 1996ء بوقت نماز شب بروز جمعہ عالم جاودانی کی طرف کوچ فرما گئے۔ آپ کے جنازہ میں ہر مسلک کے لوگوں اور تمام اہل اسلام نے شرکت کی۔ خداوند کریم آپ کے درجات عالیہ کو متعالیہ فرمائیں۔ حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ غلام عباس نجفی مرحوم آف جھنگ کی چوبیسویں برسی کے موقع پر ان کی انچاس 49 سالہ مختصر زندگی جو کہ دین کی خدمت میں صرف ہوئی کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا۔ آپ کی شخصیت دینی و دنیاوی تعلیم کا حسین امتزاج تھی۔ آپ انتھائی سادگی پسند اور بے لوث رہنماء تھے۔ آپ کی خدمات کا احاطہ کرنے کیلئے ضخیم کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔ اللہ نجفی صاحب کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

مرحوم سے کافی ملاقاتیں تھیں۔ جب وہ زیدی ہاوس لاہور میں محرم کی مجالس پڑھا کرتے تھے تو مجلس کے بعد تحریک کے دفتر تشریف لاتے، جہاں طویل نشستیں ہوتیں۔ انجمن حسینیہ جھنگ کی بحالی کے لیے آپ کی خدمات مثالی ہیں۔ اس میں شہید کیپٹن علی رضا، ڈی سی خانیوال جو اس وقت محکمہ سوشل ویلفئر میں ڈپٹی سیکرٹری تھے اور بندہ ناچیز بھی وہیں تھا۔ یوں مشترکہ کوششوں سے انجمن بحال ہوئی، قدرت نے انہیں زیادہ وقت نہیں دیا۔ علامہ غلام عباس نجفی مرحوم میں خود اعتمادی بلا کی تھی۔ جب انجمن حسینیہ بحال ہوئی تو فیصل صالح حیات کے پورے گروپ کو انجمن کے ممبرز بنا دیا گیا۔ آپ جنرل سیکرٹری تھے۔ میں نے متوقع خدشات کا ذکر کیا تو فرمانے لگے کہ ایک دفعہ بحال ہونے دیں، پھر میں سنبھال لوں گا۔ بعد میں اس حوالے سے کافی مشکلات درپیش آئیں۔
خبر کا کوڈ : 1142987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش