اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے چین کے اپنے دورے کے موقع پر دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے پیپلز ڈیلی آف چائنہ (People's Daily) نامی چینی اخبار میں چھپنے والے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ یہ فخر کی بات ہے کہ چین میں موسم بہار کی تقریبات کے موقع پر، مَیں اپنے پیارے دوست مسٹر وانگ یی کے ساتھ مشورت کے لئے بیجنگ کے سفر پر ہوں۔ سید عباس عراقچی نے لکھا کہ کازان میں ایرانی و چینی صدور کی کامیاب ملاقات کے بعد قدیمی دوستوں کے ساتھ ملاقات کے لئے میرا یہ سفر؛ ایک ایسے وقت میں انجام پا رہا ہے جب عالمی و علاقائی تبدیلیوں کے دوران اہم و تاریخی صورتحال میں دونوں ممالک کی عملی باہمی تعاون کی راہیں، قومی رہنماؤں کے اتفاق سے، پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہو چکی ہیں۔
اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جوہری موضاعات، ایران و چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کا ایک لازمی جزو ہیں، ایرانی وزیر خارجہ نے لکھا کہ مجھے آخری بار بیجنگ آئے تقریباً 5 سال بیت رہے ہیں جب (سال 2019 میں) اس وقت میں "جوہری معاہدے (JCPOA) پر مشترکہ مشاورتی اجلاس" میں شرکت کے لئے بیجنگ آیا تھا اور تب چینی دوستوں کے ساتھ اچھی گفتگو ہوئی تھی اور ہم نے دیگر فریقوں کو جے سی پی او اے میں واپس آنے اور اپنے عہد و پیمان پر عمل کرنے پر ذمہ داری کے ساتھ آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی نیز ہم نے ایک ذمہ دارانہ و عملی نقطۂ نظر کے ساتھ یہ بھی واضح کیا تھا کہ جوہری موضوعات دونوں ممالک کے اسٹریٹجک تعاون کا ایک لازم و ملزوم حصہ ہیں اور وہ چیز کہ جو کسی معاہدے کو پائیدار بناتی ہے وہ ہے "ذمہ داری کے ساتھ برتاؤ" اور "عہد و پیمان کی پاسداری" ہے اور یہ کہ خطے کا ایک اہم کھلاڑی ہونے کے ناطے ایران کے ساتھ احترام و برابری کی بنیاد پر گفتگو کی جانی چاہیئے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران و چین کے مفادات اور خدشات مشترک ہیں، انہوں نے لکھا کہ ایران و چین کے نہ صرف دوطرفہ و علاقائی سطح پر بلکہ غیر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مفادات اور خدشات مشترک ہیں جیسا کہ کثیرالجہتی کی اہمیت اور انسانی معاشرے کی خوشحالی کے لئے اجتماعی تعاون کے فوائد پر پختہ یقین کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس سمیت کثیرالجہتی پلیٹ فارموں پر بھی قریبی تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ مجھے یقین ہے کہ سال 2025 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں اپنی کامیاب صدارت اور چین کے مضبوط ارادے کے ساتھ اجتماعی تعاون کے نئے مواقع فراہم کرے گی جیسا کہ سال 2024 کے دوران میری ٹائم سکیورٹی مشقوں کا انعقاد ہوا جو دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطحی تعاون اور میری ٹائم سکیورٹی کو یقینی بنانے پر مبنی مشترکہ کوششوں کا مظہر تھا۔
اپنے مقالے میں سید عباس عراقچی نے لکھا کہ اگرچہ کچھ ممالک حقائق کو مسخ کرتے ہوئے "پابندیوں"، "دباؤ" اور "دوہرے معیارات" کا سہارا لے کر دنیا بھر کو "جمہوری" و "غیر جمہوری" عنوانات پر مبنی اپنی توہم پرستانہ و جعلی تقسیم کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ انہیں اپنی مطلوبہ اقدار و مفادات کا انتخاب کرنے پر مجبور کر سکیں؛ ایران و چین، یکطرفہ پن اور غنڈہ گردی سے نپٹنے کے لئے ہمیشہ ترقی و خوشحالی، تعاون اور جنوبی ممالک کے درمیان دوستی پر مبنی تاریخ کی درست سمت میں باقی رہیں گے کیونکہ "تصادم و دشمنی" صرف عالمی برادری کے اجتماعی مفادات کو ہی کمزور بناتی ہے جس کے بعد کوئی فاتح قرار نہیں پاتا۔ انہوں نے لکھا کہ ایران و چین، دو قدیم ایشیائی تہذیبوں کے طور پر، نہ صرف ہمیشہ مشکل وقت میں دوست رہے ہیں بلکہ انہوں نے انسانی معاشرے میں امن کو یقینی بنانے سمیت اس کی ترقی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اپنی تحریر کے آخر میں ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ "ایران و چین کے باہمی تعلقات کی اگلی سنہری نصف صدی" اس بات کو ظاہر کرے گی کہ یہ دورہ، دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہے خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ جب، چینی داناؤں کے بقول "اقدامات، الفاظ سے زیادہ بولتے ہوں!"