اسلام ٹائمز۔ D8 ممالک کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" 17 دسمبر سے قاھرہ میں موجود ہیں۔ اپنی اس موجودگی کے دوران انہوں نے مصری چینل "الغد" کو ایک انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے علاقائی و عالمی مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کے نکتہ نظر کی وضاحت کی۔ نیز انہوں نے قاھرہ اور تہران کے درمیان تعلقات پر بھی اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے گریٹر اسرائیل کے تناظر میں بڑے اسلامی ممالک کو توڑنے اور کمزور کرنے کے طویل المدت امریکی و صیہونی منصوبے کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 60 ہزار سے زائد بچوں، خواتین و نہتے شہریوں کی نسل کشی، لبنان پر جارحیت اور شام کے دفاعی و اقتصادی ڈھانچے کی تباہی میں صیہونی رژیم کا طرز عمل، ایران کے اس دعوے کو تقویت بخشتا ہے جس میں تہران، تل ابیب کو سارے خطے کے لئے خطرہ قرار دیتا ہے۔ انہوں نے داعش و دیگر دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے ایرانی عسکری مشیران کی شام میں موجودگی اور شہید قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر کیا۔ نیز ملک میں نئے نظام کی آمد سے شام میں دہشت گردی کے ناسور کی دوبارہ واپسی کا بھی عندیہ دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دہشت گردی کی اس لہر کی واپسی خطے کے تمام ممالک کے لئے خطرہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران، صیہونی رژیم کی جارحیت کے مقابلے میں شام میں فرد واحد کی نہیں بلکہ اس ملک کی عوام اور خودمختاری کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شام کو آستانہ مذاکرات کے دائرہ کار اور بحران کے حل کے لئے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی نصیحت کی۔ تاہم شامی حکومت خود مختار تھی اور ایران و روس کے کنٹرول میں نہیں تھی۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ خطے میں استقامتی محاذ کی تشکیل کا مقصد فلسطین میں صیہونی رژیم کی جارحیت، بڑھتے ہوئے اسرائیلی قبضے اور فلسطینی عوام کے حقوق کا حصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ میں مقاومت! کافی نقصان اٹھانے اور اپنے قائدین کی شہادت کے باوجود صیہونی رژیم کو کاری ضربیں لگانے میں کامیاب رہی، یہی امر اس بات کا باعث بنا کہ اسرائیل کو مذاکرات کے لئے مجبور کر سکے، نیز لبنان میں جنگ بندی بھی اسی نقصان کی وجہ سے عمل میں آئی۔ انہوں نے صیہونی رژیم کے قبضے و جارحیت کے خلاف مقاومت کو ایک عظیم درس گاہ قرار دیا کہ جو اپنے قائدین کی شہادتوں کے باوجود نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ پہلے سے زیادہ محکم ہو کر ابھرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچ باطل ہے کہ استقامتی محاذ ایران کے حکم پر کام کرتا ہے۔