0
Monday 21 Oct 2024 11:52

صدر مملکت کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری

صدر مملکت کے دستخط کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
اسلام ٹائمز۔ 26 ویں آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز کابینہ کی منظوری کے بعد دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی، جس میں حکومت نے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت ثابت کی۔ کابینہ اور دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے دستاویز کو دستخط کے لیے صدر کو بھجوایا تھا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے گزٹ نوٹیفکیشن پر دستخط کیے، جس کے بعد نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں شق وار منظوری کیلئے ووٹنگ کروائی گئی، اس دوران 225 ارکان نے تمام 27 شقوں کی شق وار منظوری دی۔ شق وار منظوری کے بعد وزیر قانون نے آئینی ترمیم باضابطہ منظوری کیلئے ایوان کے سامنے پیش کی، جس کے بعد ڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کی گئی، نواز شریف نے ڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں سب سے پہلے ووٹ دیا۔

اس سے قبل سینیٹ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی سے شق وار منظوری کیلئے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی تھی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پر ارکان نے کھڑے ہوکر ووٹ کیا، ترمیم کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیئے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی۔ ملکی ایوان بالا (سینیٹ) نے دوتہائی اکثریت سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی تھی۔ سینیٹ میں آئینی ترامیم کے حق میں 65 اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے، حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ آئے۔ ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور ایم ڈبیلو ایم کے ارکان ایوان سے چلے گئے تھے۔

آئینی ترامیم:
  • * جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹس کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔
    * سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کمیشن کے تحت ہوگی۔
    * کمیشن میں چیف جسٹس، پریزائیڈنگ جج اور سپریم کورٹ کے 3 سینیئر موسٹ جج شامل ہوں گے، کمیشن میں وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کا 15 سال کا تجربہ رکھنے والا وکیل شامل ہوگا، جوڈیشل کمیشن میں سیینٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان شامل ہوں گے، جبکہ کمیشن میں ایک خاتون یا غیر مسلم رکن بھی ہوگا، جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرر کی اہلیت رکھتا ہو۔
    * چیف جسٹس پاکستان کو اسپیشل پارلیمانی کمیٹی نامزد کرے گی اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے ہوگا، نامزد جج کے انکار کی صورت میں بقیہ 3 سینیئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جاسکے گا۔
    * پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کرے گی۔
    * آئین منظوری کے بعد چیف جسٹس کی پہلی نامزدگی 3 روز قبل ہوگی، کمیشن یا کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جاسکے گا۔
    * کمیشن ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ لے گا اور ناقص کارکردگی پر جج کو بہتری کے لیے مہلت دی جائے گی، دوبارہ ناقص کارکردگی پر کمیشن جج کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا۔
    * سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں خالی جگہ بھرنے کے لیے کمیشن کا کوئی رکن بھی نامزدگی کرسکتا ہے۔
    * کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج تعینات نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ پاکستانی نہ ہو اور سپریم کورٹ کا جج ہونے کے لیے 5 سال ہائیکورٹ کا جج ہونا یا 15 سال ہائیکورٹ/سپریم کورٹ کا وکیل ہونا لازم ہوگا۔
    * چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی، ماسوائے یہ کہ وہ استعفیٰ دے، 65 سال کا ہو جائے یا برطرف کیا جائے۔
    * سپریم کورٹ از خود نوٹس کی بنیاد پر کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم یا ہدایت جاری نہیں کریگی۔
    * سپریم کورٹ کسی کیس یا اپیل کو دوسری ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ منتقل کرسکے گی۔
    * سپریم کورٹ میں آئینی بینچ ہوگا، جس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے اور آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز ہوں گے، سینیئر ترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہوگا، جبکہ آئینی بینچ کے سوا کوئی بینچ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملہ نہیں دیکھے گا، آئینی بینچ میں کم از کم 5 ججز ہوں گے۔
    * متعلقہ تمام درخواستیں یا اپیلیں آئینی بینچ کو منتقل کی جائیں گی۔
    * ہائیکورٹ میں کوئی جج تعینات نہیں ہوگا، جو پاکستانی شہری نہ ہو اور 40 سال سے کم عمر نہ ہو، ہائیکورٹس میں بھی آئینی بینچ ہوگا۔
    * سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے 2 دو سینیئر ترین ججز ہوں گے۔
    * کونسل میں اختلاف پر اکثریت کا فیصلہ حاوی ہوگا اور کونسل کی انکوائری کے بعد جج کی برطرفی کے لیے صدر کو رپورٹ کی جائے گی۔
    * چیف الیکشن کمشنر یا ممبر اپنی مدت پوری ہونے پر اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔
    * جنوری 2028ء تک ربا کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
    * کابینہ یا وزیراعظم کے صدر کو دیئے گئے مشورے پر کسی عدالت، ٹربیونل یا اتھارٹی میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
    * قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ اور بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے الیکشن کے لیے درکار رقم چارجڈ اخراجات میں شامل ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1167706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش