اسلام ٹائمز۔ پروفیشنلز آف تحریک بیداری کے زیر اہتمام "پاکستان میں ٹیکنالوجی کی مقامی سازی" کے عنوان سے ایک علمی و تحقیقی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ نیشنل انشورنس کمپنی آڈیٹوریم اسلام آباد میں منعقدہ کانفرنس میں سابقہ سفیر و مستقل مندوب اقوام متحدہ ضمیر اکرم، سی ای او نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ڈاکٹر ماجد بھٹی، ڈپٹی چیف سائنٹسٹ کوالٹی انشورنس پنجاب نیوکلیئر پلانٹ ڈاکٹر انجم اقبال، ڈائریکٹر جنرل ہمدرد یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر امتیاز حیدر، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پتھالوجی/صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن بریگیڈیئر ڈاکٹر آصف نواز اور دیگر ممتاز دانشور، ماہرین، اور طلبہ شریک ہوئے۔
تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں علم و دانش اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کو ترقی یافتہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں بنیادی عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کی توانائیاں اور قابلیتیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن سیاسی بدانتظامی، سماجی خلل اور معاشی کمزوری نے ہمیں اس مقام سے محروم رکھا ہے جو ہمارا حق تھا۔ مشرق وسطیٰ کے عالمی حالات میں بھی، جہاں مسلمانوں نے مختلف میادین میں نمایاں و بے مثل کامیابیاں حاصل کی ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں کمزوری کا فائدہ ہمارے دشمنوں نے اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی کے محض خریدار اور صارف بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے صنعتی میدان محدود ہو رہے ہیں اور سرمایہ اور افرادی قوت ملک سے باہر جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں حکومتوں سے توقع کرنا حماقت ہے کیونکہ پاکستان میں موجودہ حکمران طبقہ، خواہ وہ اقتدار میں ہو یا اپوزیشن میں، ملک و قوم کی ترقی کے لیے ضروری فہم و فراست سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کو مشورے دینے کے بجائے ہماری توجہ عوامی طبقات بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے، استاتذہ، طلباء اور نوجوان نسل پر مرکوز ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں اسے مقامی سطح پر اپنانا اور اسے پاکستانی قوم کا اثاثہ بنانا ہوگا تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنے وقار کو بحال کر سکیں۔ انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کو مذہب سے مربوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب اہلِ علم اور ماہرین یہ تشخیص کریں کہ کسی چیز کی موجودہ دور میں انسانی نسل کے لیے اشد ضرورت ہے، تو دین اسے اپنا بنیادی موضوع بنا دیتا ہے اور اسے لازمی قرار دیتا ہے۔ یہ ناروا تقسیم جو دین اور دنیا اور مذہبی و رائج علوم کے درمیان کی گئی ہے، اس نے دونوں کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج دفاعی اور دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے خود انحصاری اہم ہے۔ ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کو مقامی سطح پر تیار کرنا ہوگا۔ تائیوان کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ وہ ایک سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک ہونے کے باوجود، ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے اپنی دنیا کی ضرورت بن چکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا قوم پر عظیم احسان ہے جنہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی کو پاکستان میں مقامی سطح پر منتقل کر کے ایک قابلِ تحسین عمل انجام دیا۔
علامہ جواد نقوی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کے نوجوانوں کو بھی تعلیم کے حصول کے بعد اپنی مہارت اور علم کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور حقیقت میں سائنس، ٹیکنالوجی، اور دیگر میدانوں کے ماہرین کا اصل عملِ صالح ان کے اپنے شعبوں میں ترقی لانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس ایک اہم قدم ہے جو ایک قومی شعور پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ ہماری موجودہ حالت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ دشمن ہماری ٹیکنالوجی میں پسماندگی کا فائدہ اٹھا کر ہمیں کمزور بنا رہا ہے۔ ہماری بقا، عزت، اور حقوق کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی میں خود انحصاری بنیادی ضرورت ہے۔ آج ہم اس حالت میں ہیں کہ ہماری امت دین و دنیا دونوں سے محروم ہو چکی ہے۔ ہماری معیشت قرضوں پر چل رہی ہے، اور ہماری نسلیں ملک چھوڑنے میں اپنی نجات سمجھتی ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے ہمیں قومی عزم کی ضرورت ہے۔