0
Sunday 26 Jan 2025 20:11

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل
تحریر: شاه ابراہیم

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی آج ایسے حالات میں کابل پہنچے ہیں کہ یہ دورہ نہ صرف ایران اور افغانستان کے لئے انتہائی اہم ہے بلکہ خطے کے ممالک کے لیے بھی انتہائی اسٹریٹیجک حیثیت رکھتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور ان کے ہمراہ وفد کا آج اتوار (26 جنوری) کو کابل ہوائی اڈے پر پہنچنے پر افغان وزارت خارجہ کے حکام، ایرانی سفارت خانے کے انچارج ڈی افیئرز اور ایرانی سفارت کاروں نے استقبال کیا۔ سید عباس عراقچی افغان نگراں حکومت سے مذاکرات کے لیے کابل گئے ہیں۔ اس ایک روزہ دورے کے دوران افغانستان کی نگراں حکومت کے ساتھ مشترکہ دلچسپی کے امور اور موضوعات پر تبادلہ خیال کیا جانا ہے۔

ایرانی اقتصادی کارکنوں کا ایک گروپ بھی اس سفر میں محمد عباس عراقچی کے ساتھ ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے "سید عباس عراقچی" کا کابل کا یہ پہلا دورہ ہے، یہ دورہ افغانستان اور اسلامی جمہوریہ ایران کی نگراں حکومت کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو وسعت دینے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 1000 کلومیٹر سے زیادہ کی سرحد ہے۔

عراقچی کا کابل کا سفر
 ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان اور اقتصادی میدان میں نئی ​​صلاحیتوں کی تعریف سے اس شعبے میں دوطرفہ تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ عراقچی اور افغان نگراں حکومت کے حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت میں افغان مہاجرین کے حوالے سے ایران کے مطالبات بھی ان اہم مسائل میں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اعلان کیا ہے کہ ایران میں افغان مہاجرین کی وجہ سے ایرانی حکومت کو سالانہ کم از کم 6 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق پناہ گزینوں کی بین الاقوامی ایجنسیوں، اقوام متحدہ اور غیر ملکی حکومتوں نے چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان شہریوں کی میزبانی میں ایران کو تقریباً کوئی خاص مدد فراہم نہیں کی ہے۔

کابل میں ہونے والی سیاسی مشاورت کا مقصد ایران اور افغانستان کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینا ہے، اس لیے کہ تہران اور کابل کے درمیان سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے مشترکہ بنیادیں موجود ہیں۔ حالیہ دنوں میں مشرقی ایران کا علاقہ "ڈوگھرون بارڈر" (جو کہ ایران اور افغانستان سے آنے جانے والے سامان اور مسافروں کے داخلے کے اہم مقامات میں سے ایک ہے) ایک خصوصی تجارتی اور صنعتی زون میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جو سرحدی ڈھانچے کی توسیع اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تبادلے پر توجہ دینے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بھی ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کی چابہار بندرگاہ میں بنیادی ڈھانچہ بنا کر چابہار کی طرف توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی ہے اور افغان تاجروں کے لیے اپنا سامان کابل اور ملک کے دیگر شہروں تک پہنچانے کے لیے خصوصی سہولیات مہیا کی ہیں۔ ایران کی پزشکییان حکومت ملک کے مشرق میں اپنی ریلوے لائن کو مکمل کرکے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وسطی ریلوے سے "خواف ہرات" ریلوے لائن کو جوڑ کر افغانستان کو کھلے پانیوں تک رسائی فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح افغان تاجر ایرانی ریلوے لائن کا استعمال کرتے ہوئے اپنا سامان ترکی اور وہاں سے یورپ تک پہنچا سکتے ہیں۔

افغانستان کی وزارت صنعت و تجارت کی شماریاتی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایران اور افغانستان کے درمیان گذشتہ سال (2024ء) تجارت کا حجم 3 ارب 197 ملین ڈالر تھا، جو کہ 2023ء کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ ہے۔ دریائے ہلمند کے پانی پر ایران کے حق کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے، جو طالبان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان گذشتہ تین سالوں سے موجود ہے اور ایران نے افغانستان کی نگراں حکومت سے کہا ہے کہ وہ ہلمند آبی معاہدے کی پاسداری کرے۔ پانی کے حقوق کے معاملے میں مسئلہ صرف دریائے ہلمند تک ہی محدود نہیں ہے اور طالبان حکومت ایران کے پانی کے راستوں پر ایک کے بعد ایک ڈیم بنا رہی ہے۔ یہ بھی ایک ایسا مسئلہ ہے، جس پر ایران توجہ دے رہا ہے اور اس نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان سے ایران کے آبی حقوق کو محدود نہ کیا جائے۔

عراقچی کا دورہ کابل اور افغان حکام سے بات چیت پڑوسی ممالک اور خطے کے ساتھ تعاون کو وسعت دینے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارت کاری کا ایک اہم حصہ ہے۔ حالیہ برسوں میں ایران نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ علاقائی تعاون کا خیر مقدم کرتا ہے اور علاقائی مسائل کے حل میں سب سے اہم عنصر دو طرفہ تعاون کو بڑھانا اور غیر ملکی مداخلت کو کم کرنا ہے۔ ابھی تک کی خبروں کے مطابق ایرانی وزير خارجہ نے کابل میں افغانستان کے وزير خارجہ سے ملاقات میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، کہ ایران اور افغانستان دو دوست، برادر اور مسلمان ملک ہیں، کہا ہے کہ دونوں ہمیشہ اچھے ثقافتی و تاریخی تعلقات کے حامل رہے ہيں۔ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران اور افغانستان کے تجارتی تعلقات کی سطح بہت اچھی ہے اور ہمیں امید ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی مفادات کے تناظر میں دونوں کے تجارتی و ثقافتی تعلقات میں مزید فروغ آئے گا۔

اس ملاقات میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ ایران اور افغانستان دو پڑوسی اور مسلمان ممالک ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک رہے ہيں۔ بہرحال ایران اور افغانستان کے پاس موجودہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے کے لیے موزوں بنیادیں موجود ہیں۔ مغربی ایشیاء میں ایران کی اسٹریٹجک پوزیشن افغانستان اور دیگر پڑوسی ممالک کے لیے اس صلاحیت کو اپنی اقتصادی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا ایک اچھا موقع ہوگا۔ عراقچی کا دورہ کابل امریکہ اور مغرب کی بحران پیدا کرنے کی کوششوں کو بے اثر کرنے میں بھی ایک موثر عنصر ثابت ہوگا، کیونکہ یہ امریکہ ہی ہے ہمیشہ کشیدگی پیدا کرکے خطے کے خراب حالات اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1186786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش