تحریر: ڈاکٹر محمد لطیف مطہری
صدر اسلام کی سب سے بااثر شخصیات میں سے ایک حضرت ابو طالب (ع) امام علی (ع) کے والد گرامی ہیں۔ حضرت ابو طالب (ع) کا نام "عمران" تھا اور بعض افراد انہیں "عبد مناف" کے نام سے پکارتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے کا نام "طالب" تھا، اس لیے انہیں ابو طالب کہا جاتا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت سے 35 سال قبل مکہ میں ایک ممتاز اور موحد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ رسول خدا کے والد گرامی عبداللہ کے بھائی تھے اور آپ کے والد گرامی عبدالمطلب پیغمبر اسلام کے دادا تھے۔ ابو طالب کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان کے بیٹوں کی عمر میں دس سال کا فرق تھا۔ طالب ان کا بڑا بیٹا ہے، جس کی کوئی اولاد باقی نہیں رہی۔ ان کا دوسرا بیٹا عقیل اور تیسرا جعفر جو جعفر طیار کے نام سے مشہور تھے اور آخری بیٹا حضرت علی (ع) تھے۔ ان کی دو بیٹیاں جن میں سے ایک کا نام ام ہانی اور دوسری بیٹی کا نام اسماء تھا۔ حضرت ابو طالب کی ساری اولاد حضرت فاطمہ بنت اسد سے تھی۔(1)
عرب کے تمام قبائل ان کی عظمت اور شرافت سے واقف تھے اور وہ انہیں دین ابراہیمی کے مبلغ کے طور پر یاد کرتے تھے۔ عبدالمطلب اس قدر مقبول تھے کہ انہیں "سید البطحاء" سرزمین مکہ کا سردار، حاجیوں کو پانی فراہم کرنے والا، "ابو السادہ" کرامت اوربزرگواری کے باپ اور "حافر الزمزم" زمزم کو کھودنے والے کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ عبدالمطلب کے وصی اور پیغمبر اسلام (ص) کے سب سے بڑے حامی تھے۔ ان کی زندگی کی تاریخ بے مثال اعزازات سے بھری پڑی ہے۔ وہ شخص جو حقیقی معنوں میں دکھوں اور محروموں کی پناہ گاہ تھا۔ قربانی اور خلوص ان کے اندر مجسم تھا۔ ایک ایسی شخصیت جس کی قربانیوں اور استقامت سے تاریخ بھری پڑی ہوئی ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی خداوند متعال سے غافل نہیں رہے، بلکہ وہ توحید کے علمبردار حضرت ابراہیم (ع) کے جانشینوں میں سے تھے اور انبیاء الہیٰ کی پیشین گوئیوں کے مطابق وہ خاتم النبیین "محمد ابن عبداللہ (ص)" کی نبوت کے منتظر تھے۔
اسی وجہ سے رسول خدا کی ولادت سے پہلے ہی حضرت ابو طالب (ع) رسول خدا (ص) پر ایمان رکھتے تھے اور جب رسول خدا (ص) کی ولادت ہوئی تو ابو طالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کو ولادت کی اطلاع دی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ان کے ساتھ ہونے والے عجیب و غریب واقعات کے بارے میں اطلاع دی تو حضرت ابو طالب نے فرمایا: "کیا تم ان چیزوں کی وجہ سے تعجب کرتی ہو؟ بس تیس سال انتظار کرو، تم بھی اس جیسا کوئی پیدا کرو گی، جو اس کا وزیر اور جانشین ہوگا۔(2) حضرت ابو طالب (ع) ایک باایمان اور بااختیار انسان تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک پیغمبر اسلام کو کفار قریش کے شر سے محفوظ رکھا اور دین اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، ان کی تمام تر قربانیوں اور فدا کاریوں کے باوجود کچھ متعصب اور مبغض افراد آپ کے ایمان اور عقیدے پر شک کرتے نظر آتے ہیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو آپ کے والد عبداللہ انتقال کرچکے تھے۔ چنانچہ ان کے دادا عبدالمطلب نے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالی اور ان کی وفات کو سات سال سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ ان کے دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ مرتے وقت حضرت عبدالمطلب نے ابو طالب(ع) کو اپنے بچوں سے پیغمبر اکرم (ص) کے ولی کے طور پر متعارف کرایا۔ جیسا کہ بنیادی اسلامی مآخذ میں بیان کیا گیا ہے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم آٹھ سال کے تھے، جب آپ کے دادا کا انتقال ہوگیا۔ جب عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو انہوں نے ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگہداشت کی ذمہ داری سونپی۔‘‘ (۳) جیسا کہ اس وصیت کا اظہار اشعار میں بھی ہوا ہے: اوصیک یا عبد مناف بعدى_____بموعد بعد ابیه فردٍ۔ "اے عبد مناف (ابو طالب!) میں آپ کو ایک ایسے شخص کی حفاظت سونپتا ہوں، جو اپنے والد کی طرح توحید پرست ہے، حضرت ابو طالب نے جواب دیا: بابا جان! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضانت اور سرپرستی کے لئے کسی حکم کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ میرا اور میرے بھائی کا فرزند ہے۔"(4)
حضرت ابو طالب (ع) کی پرورش ایک خدا پرست، موحد خاندان اور عبدالمطلب جیسے باپ کے سائے میں ہوئی، جو معنوی اور روحانی کمالات کے مالک تھے۔ وہ اپنے والد گرامی کی طرح دین حنیف ابراہیمی کے راستے پر چلتے ہوئے خانہ خدا کے زائرین کو پانی پلانے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریقے سے انجام دیتے تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) نہ صرف اہل مکہ کی شرک اور بت پرستی کے زیر اثر نہیں آئے بلکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت کی رسومات کے ساتھ مقابلہ کیا اور شراب نوشی کو اپنے لئے حرام قرار دیا اور اپنے آپ کو ہر قسم کی بدکاری اور آلودگی سے محفوظ رکھا۔ حضرت ابو طالب (ع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر شدید محبت کرتے کہ اس طرح وہ اپنے بچوں میں سے کسی سے اتنی محبت نہیں کرتے تھے۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سوتے تھے اور جب بھی باہر جاتے تو آپ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر محبت رکھتے تھے کہ سب سے اچھی غذا کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے رکھتے تھے۔(5) علامہ مجلسی (ر) بیان کرتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر سو جاتے تو سب کے سونے کے بعد حضرت ابو طالب(ع) انہیں آہستہ سے جگا دیتے تھے اور امام علی علیہ السلام کی جگہ سلا دیتے تھے اور اپنے بیٹے اور بھائیوں کو اس کی حفاظت کے لیے مقرر کرتے تھے۔(6) یعقوبی لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ حضرت ابو طالب (ع) کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد (س) کی وفات کے بعد، جو ایک شریف اور مسلمان خاتون تھیں، آپ نے فرمایا: آج میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ نے انہیں اپنی قمیص میں کفن دیا اور ان کی قبر پر سو گئے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت فاطمہ بنت اسد کی وفات پر اتنے بیتاب کیوں ہیں۔؟ آپ نے فرمایا: وہ واقعاً میری ماں تھیں، کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر مجھے کھلاتی تھیں، اپنے بچوں کو خاک آلود چھوڑ دیتیں اور مجھے صاف ستھری اور اچھی طرح سے تیار کر لیتی تھیں، حقیقت میں وہ واقعی میری ماں تھی۔(7)
حضرت ابو طالب (ع) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اپنے گھر منتقل کیا تو آپ کا سن آٹھ سال ہوچکا تھا۔ یہاں سے پچاس سال ہونے تک انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی آپ کی مدد اور نصرت سے ہاتھ نہیں اٹھایا، بلکہ اپنے اور اپنے بچوں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقدم رکھتے تھے۔ اسی طرح ممکنہ خطرات کو آپ اور آپ کی اولاد دل و جان سے برداشت کرتی تھی۔ جب حضرت ابو طالب (ع) شام کی طرف تجارتی سفر میں روانہ ہو رہے تھے، اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جن کی ابھی تک صرف بارہ سال بھی نہیں تھی، اپنے چچا کی اونٹنی کی لگام کو پکڑ لیتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہیں اور آپ اپنے چچا جان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ مجھے کس کے سپرد کر رہے ہیں۔؟
آپ اس بیان سے غمگین ہو جاتے ہیں اور اپنے بھتیجے کو سفر میں ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سواری پر بٹھاتے ہیں، جس پر وہ خود سوار تھے اور اپنے ساتھ دمشق لے جاتے ہیں۔ راستے میں "بصری" نامی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں ایک خانقاہ تھی اور وہاں ایک عیسائی راہب رہتا تھا۔ دوسرے راہب اس بڑے راہب سے ملنے وہاں آتے تھے۔ ہر سال قریش کا ایک قافلہ اس جگہ سے گزرتا تھا اور راہب انہیں نظر انداز کر دیتا تھا۔ اس سال، ماضی کے برعکس، راہب نے قافلے کے لوگوں کو مدعو کیا اور انہیں کھانا کھلایا۔ راہب نے دیکھا کہ ایک بادل قریش کے قافلے پر سایہ کر رہا ہے۔ اس کو یہ علم ہوا کہ اس گروہ میں سے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزیز ہے۔
راہب کی دعوت پر قافلہ خانقاہ میں داخل ہوا۔ راہب نے دیکھا کہ بادل کی حرکت بھی رک گئی ہے۔ پوچھا کیا قافلہ میں سے کوئی رہ گیا ہے۔؟ کہنے لگے ایک بچہ اونٹوں اور سامان کے پاس موجود ہے۔ راہب نے کہا کہ اسے بھی اندر آنے کو کہو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوئے۔ راہب نے آپ کے قد کا بغور مشاہدہ کیا۔ قافلہ والوں میں سے ایک نے راہب سے کہا، "آپ پہلے ہمارا استقبال نہیں کرتے تھے، کیا کچھ ایسا ہوا ہے کہ آپ نے ہمیں قبول کر لیا۔؟ راہب نے کہا ہاں کچھ یہی ہوا ہے اور اب تم سب میرے مہمان ہو۔ کاروان کے کھانا کھانے اور متفرق ہونے کے بعد راہب ابو طالب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک کونے میں لے جا کر گفتگو کرنا شروع کرتا ہے۔ راہب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: "اے بیٹے، میں تمہیں مکہ کے دو عظیم بتوں، لات اور عزیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ میں تم سے جو کچھ پوچھوں تم اس کا جواب دو گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «لا تسالنی باللات و العزی فوالله ما ابغضت شیئا قط بغضهما»، "مجھ سے لات اور عزیٰ کی قسم کھا کر سوال نہ کرو، اللہ کی قسم میں ان سے زیادہ کسی چیز کو ناپسند نہیں کرتا ہوں۔" راہب نے کہا پھر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ میرے سوالوں کا جواب دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جس چیز کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہو سوال کرو۔ اس کے بعد راہب نے آپ سے نیند، بیداری اور ان کے دیگر کاموں کے بارے میں پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام سوالات کا انجیل اور دیگر کتابوں میں موجود نبی خاتم کے بارے میں موجود مطالب کے ساتھ جواب دیا ۔ راہب نے آپ سے تقاضا کیا کہ وہ آپ کے کندھوں کے درمیانی حصہ کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ راہب نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کا مشاہدہ کیا۔ پھر اس نے حضرت ابو طالب(ع) سے کچھ سوالات کئے۔
اس نے پوچھا کہ اس لڑکے کا تم سے کیا رشتہ ہے۔؟ حضرت ابو طالب (ع) نے فرمایا: "یہ میرا بیٹا ہے۔" راہب نے کہا یہ تمہارا فرزند نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہ میرے بھائی کا فرزند ہے۔ راہب نے دوبارہ سوال کیا کہ اس کا باپ کہاں ہے۔؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد گرامی کا انتقال اس وقت ہوا ہے، جب یہ فرزند اپنے ماں کی شکم میں موجود تھا۔ راہب نے حضرت ابو طالب(ع) کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ اسے مکہ واپس لے جاو اور یہودیوں سے اس کی حفاظت میں ہمیشہ تیار اور مستعد رہو۔ خدا کی قسم اگر یہودیوں کو یہ فرزند مل جائے اور یہ بات جان لیں، جو کچھ میں اس کے بارے میں جانتا ہوں تو وہ اس سے نفرت کریں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ ’’اس بچے کا مستقبل بہت روشن اور تابناک ہے، اسے جلدی سے اپنے شہر لوٹا دو۔‘‘ (۸) جب اسلام کے عظیم رہبر ہر طرف سے مشرکین مکہ کے زہریلے تیروں کا نشانہ تھے تو آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانفشانی سے حمایت کی اور اس طرح اسلام کے پھیلاؤ اور مسلمانوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کیا۔
بدقسمتی سے اس عظیم ہستی کی عظیم قربانیوں کے باوجود جو دوست اور دشمن سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، تاریخ میں بہت مظلوم واقع ہوئے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ان کی تمام کاوشوں کو نہ صرف تاریخ میں فراموش کر دیا گیا بلکہ اس عظیم بافضیلت انسان کی نسبت کفر و شرک کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ زیارت وارث میں بیان ہوا ہے: «اشهد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخة و الارحام المطهرة لم تنجسک الجاهلیة بانجاسها و لم تلبسک من مدلهمات ثیابها.»(9) "میں گواہی دیتا ہوں، بے شک آپ وہ نور ہیں، جو بلند مرتبہ صلبوں اور پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا آیا، آپ زمانہ جاہلیت کی ناپاکیوں سے آلودہ نہ ہوئے اور اس زمانے کے ناپاک لباسوں میں ملبوس نہ ہوئے۔" امام علی علیہ السلام کے والدین حضرت ابو طالب (ع) اور حضرت فاطمہ بنت اسد (س) دونوں شروع سے ہی موحد، خدا پرست اور دین ابراہیم حنیف کی پیروی کرتے تھے اور ظہور اسلام کے بعد رسول اللہ (ص) پر ایمان لائے اور دین اسلام اور شریعت محمدی پر ایمان و اعتقاد کے ساتھ ہی اس دنیا سے چلے گئے۔ اس عظیم اسلامی شخصیت کے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے ان کی قربانیوں اور عقیدتوں کے علاوہ اور بھی بہت سے شواہد موجود ہیں، ہم اختصار کی خاطر چند روایات بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں:
1۔ ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں: بہت ساری اسناد کے ساتھ، جن میں سے بعض عباس بن عبدالمطلب سے اور بعض ابو بکر بن ابی قحافہ سے منقول ہیں کہ: حضرت ابو طالب کی اس وقت تک رحلت نہیں ہوئی، جب تک انہوں نے یہ نہ کہا: «لا اله الا الله، محمد (ص) رسول الله» اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔(۱۰) آٹھویں ہجری میں ابوبکر نے اپنے والد کا ہاتھ پکڑا جو نابینا تھے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے۔ وہ آپ کی رسالت کے اکیس سال بعد آپ پر ایمان لائے (۱۱) ابوبکر ان کے ایمان لانے سے خوش ہوگئے اور کہا: یارسول اللہ! مجھے اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں آپ کے چچا ابو طالب کے اسلام اور ایمان پر اپنے والد کے اسلام لانے سے زیادہ خوش ہوں۔ واضح رہے کہ خلیفہ اول کا یہ کلام درجنوں دیگر احادیث کے ساتھ سنی منابع میں نقل ہوا ہے۔
2۔ شیعہ اور سنی تاریخی اور سیرت کی کتابوں میں منقول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) حضرت خدیجہ اور امیر المومنین (ع) کے ساتھ مستحب نماز ادا کرنے میں مشغول تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) اپنے بیٹے جعفر کے ساتھ انہیں دیکھ رہے تھے، اس وقت حضرت ابو طالب نے جعفر سے کہا: (صل جناح ابن عمّک) جاؤ اور پیغمبر خدا کے دائیں طرف نماز پڑھو۔" اور پھر امام علی (ع) کو نصیحت کی: (اما انه لایدعو الا الى خیر فالزمه) آگاہ رہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف نیکی کی طرف بلاتے ہیں، لہٰذا اسے نہ چھوڑو۔(12)
3۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے والد ابو طالب کی وفات کی خبر دی تو آپ بہت زیادہ رو پڑے۔ پھر حکم دیا: جاؤ، انہیں غسل اور کفن دو۔ خداوند متعال ان کی بخشش کرے اور ان پر رحم کرے۔(۱۳) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف لائے اور حضرت ابو طالب کی میت کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اے چچا! جب میں یتیم تھا تو آپ نے میری کفالت کی اور میرے بچپنے میں میری تربیت کی اور بڑے ہونے کے بعد میری مدد کی، خداوند متعال آپ کو اس کا اجر عظیم عطا کرے۔ ان امور کو ذکر کرنے کے بعد ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: «اما و الله لاستغفرنّ لک و لاشفعنّ فیک شفاعة یعجب لها الثقلان» "میں آپ کے لیے خدا سے اس طرح بخشش اور شفاعت چاہتا ہوں کہ جن و انس اس کی عظمت پر حیران ہوں۔" (۱۴) اس وقت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے چھ لوگوں کے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرمائی ہے۔۱۔ حضرت آمنہ ۲۔ حضرت عبد اللہ ۳۔ حضرت ابو طالب ۴۔حضرت عبد المطلب ۵۔ حضرت حلیمہ بنت ابی ذویب ۶۔ آپ کے زمانہ جاہلیت کا دوست جو سخی اور محرومین کی پناہ گاہ تھا۔ (۱۵)
4۔ امام جعفر صادق (ع) کی ایک روایت جس میں آپ فرماتے ہیں: "حضرت ابو طالب (ع) کی مثال اصحاب کہف کی مانند ہے، جنہوں نے اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھا اور خداوند متعال نے انہیں دوگنا اجر اور پاداش عطا کیا۔"(16)
5۔ امام باقر (ع) سے جب حضرت ابو طالب (ع) کے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو امام نے فرمایا: اگر ابو طالب کا ایمان ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے افراد کا ایمان دوسری طرف رکھا جائے تو ابو طالب کا ایمان برتر ہوگا۔(۱۷) اور یہی اعلیٰ ایمان تھا، جس نے ابو طالب (ع) کو نبوت اور رسالت کے منصب کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت سے باز نہ آنے پر مجبور کیا۔
6۔ امام صادق (ع) نے فرمایا: "جب امیرالمومنین علی (ع) کی والدہ نے اپنے شوہر ابو طالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی بشارت دی تو انہوں نے جواب میں فرمایا: "میں بھی تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تیس سال کے بعد تم بھی ایسے ہی فرزند کو جنم دو گی، لیکن صرف وہ نبی نہیں ہوگا۔(18) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو طالب(ع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی رسالت اور نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور ان کے اور ان کے وصی کے درمیان زمانے کے اعتبار سے جو معینہ مدت کا فاصلہ تھا، اس سے بھی کاملاً واقف تھے اور اس طرح انہوں نے اپنے بیٹے کی امامت کی بھی تصدیق کی۔
7۔ امام حسین (ع) ایک روایت اپنے والد گرامی امام علی (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن آپ (علیہ السلام) اپنے گھر کے قریب ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک جاہل شخص نے پوچھا: اے امیرالمومنین! آپ کا اتنا بڑا مقام ہے، جبکہ آپ کا باپ آگ میں ہے! امام نے فرمایا: خاموش ہو جاو، خدا تمہارا منہ توڑ دے، یہ کیسی بات ہے۔؟ اس ذات کی قسم جس نے نبی کو حق کے ساتھ بھیجا، اگر میرے والد روئے زمین کے تمام گناہگاروں کی شفاعت کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش قبول فرمائے گا۔ کیا میرا باپ آگ میں ہے، جبکہ لوگوں میں جنت و جہنم کی تقسیم کی ذمہ داری ان کے فرزند کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے۔۔۔۔؟(19)
مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ابو طالب کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد 84 سال کی عمر میں ہوئی۔(۲۰) آپ نے دنیا کو الوداع کہا جبکہ آپ کا دل خدا پر ایمان اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لبریز تھا۔ آپ کی میت کو مکہ میں حجون کے مقبرے میں، جو قبرستان ابو طالب کے نام سے مشہور ہے، دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات سے پیغمبر اسلام اور اس وقت کے مسلمانوں پر رنج و غم کے بادل چھا گئے، جن کی تعداد پچاس سے بھی کم تھی، کیونکہ وہ اسلام کی راہ میں اپنے بہترین حامی، محافظ اور فداکار سے محروم ہوگئے۔ ابن کثیر اور ابن اثیر نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد کفار قریش رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک پر مٹی اور کبھی بکریوں کی آنتیں پھینکتے تھے۔(۲۱)
چند دنوں کے بعد دین اسلام کا ایک اور ستون اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حامی حضرت خدیجہ کے انتقال سے مسلمانوں کا غم دوبالا ہوگیا۔ حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔ آپ فرماتے ہیں: «ما نالت قریش منی شیئا اکرهه حتی مات ابوطالب»، "جب تک ابو طالب زندہ تھے، قریش مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکے"(۲۲) امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: (مثل ابی طالب مثل اهل الکهف حین اسروا الایمان و اظهروا الشرک فآتاهم الله اجرهم مرتین) "ابو طالب کا مسئلہ اصحابِ غار جیسا ہے، جنہوں نے اپنے ایمان کو چھپایا اور شرک کا اظہار کیا تو خداوند متعال نے ان کا اجر دوگنا عطا کر دیا۔"(23)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ ابن ابى الحدید، شرح نهج البلاغه، ج1، ص 4۔
۲۔ اصول کافى، ج1، ص 452، ح 1و 3، روضة المتقین، ج12 ص 221؛ بحارالانوار، ج 35، ص 77، ح 14۔
3۔ محمد بن جریر طبرى، تاریخ الامم و الملوک، قاهره، مطبعة الاستقامه، بى تا، ج 2، ص 32، احمد بن اسحاق یعقوبى و تاریخ یعقوبى، مترجم، محمد ابراهیم آیتى، (تهران؛ شرکت انتشارات علمى و فرهنگى، چ ششم، 1371 ش)، ج 1، ص 368۔
۴۔ محمد بن جریر طبری ،ایضاً، احمد بن اسحاق یعقوبى، ایضاً، ابن هشام، ایضاً۔
۵۔ محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، قاهره، مطبعة نشر الثقافة الاسلامیه، 1358 ق، ج 1، ص 101۔
۶۔ بحارالانوار، ج 35، ص 93۔
7۔ احمد بن اسحاق یعقوبى، همان۔
۸۔ سیره ابن هشام، ج 1، ص 191، سیره حلبی، ج 1، ص 191; طبقات الکبریٰ لابن سعد، ج 1، ص 129; تاریخ طبری، ج 2، ص 32; الغدیر، ج 7، ص 342۔
9۔ زیارت وارث
۱۰۔ سیره صحیح پیامبر اسلام، ج2، ص 211، از معتزلى، شرح المنهج، ج 14، ص 71۔
۱۱۔ الغدیر، ج 7، ص 312۔
۱۲۔ ابن ابى الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 13، ص 199 و 200 کامل ابن اثیر، ج 2، ص 58، تاریخ طبرى، ج 2، ص 314، بحارالانوار، ج 35، ص 80، ح 20؛ الغدیر، ج7، ص 396۔
۱۳۔ بحارالانوار، ج 35، ص 68، ح 1۔
۱۴۔ ابن ابىالحدید،ایضاً، ج 16، ص 76۔
۱۵۔ ابن ابىالحدید، ایضا، ج 14، ص 67 ؛ بحار الانوار، ج 35، ص108، ح 35۔
۱۶۔ سیره صحیح پیامبر بزرگ اسلام، علامه جعفر مرتضىٰ عاملى با ترجمه حسین تاج آبادى، ج 2، ص 230، ازکتاب امالى صدوق، ص551۔
۱۷۔ ایضاً، ص 217. از الدّرجات الرّفیعه، ص 49۔
18۔ بحارالانوار، ج 35، ص 77، ح 14؛ اصول کافى، ج 1، ص 452، ح 1 و 3؛ روضة المتقین، ج 12، ص 221۔
19۔ بحارالانوار، ج 35، ص 110، ح 39۔
۲۰۔ کامل ابن اثیر، ج 1، ص 507۔
۲۱۔ بدایه و نهایه ابن کثیر، ج 3، ص 120; کامل ابن اثیر، ج 2، ص۱۲۰۔
۲۲۔ ایضاً۔
23۔ بحار الانوار، جلد 35، ص72۔