0
Tuesday 21 Jan 2025 21:32

ٹرمپ اور پاکستان

ٹرمپ اور پاکستان
تحریر: سید اسد عباس

یکم جنوری 2018ء کو امریکہ کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا: امریکہ نے گذشتہ 15 برسوں میں انتہائی بیوقوفانہ طور پر پاکستان کو امداد کی مد میں 33 ارب ڈالر دیئے اور انھوں (پاکستان) نے بدلے میں ہمارے رہنماؤں کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جن دہشتگردوں کا ہم افغانستان میں شکار کر رہے ہیں، یہ (پاکستان) انھیں محفوظ پناہ گاہیں دیتے ہیں۔" کیا 20 جنوری 2025ء کو دوسری مرتبہ امریکہ کے منتخب ہونے والے 47ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے بارے میں اپنی سابقہ سوچ کے مطابق ہی اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیں گے۔؟ صدر ٹرمپ کے انتخاب کا پاک چین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔؟ پاک ایران تعلقات پر اس انتخاب کے اثرات کیا ہوں گے۔؟ کیا امریکا پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہوگا۔؟ کیا ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق عمران خان کی رہائی کے لیے اقدامات کریں گے۔؟ ٹرمپ اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں۔؟

یہ وہ سوالات ہیں، جو ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود ہیں۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ صدر جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی غیر معمولی تعلقات نہیں رہے ہیں۔ اپنے چار برس کے دورِ صدارت میں جو بائیڈن نے کسی بھی پاکستانی رہنماء سے ٹیلی فونک گفتگو تک نہیں کی اور نہ ہی اُن کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے اس پوری مدت میں پاکستان کا رُخ کیا۔ صدر بائیڈن کے دورِ صدارت میں ایک بار پھر پاکستان کا لانگ رینج بیلسٹک میزائل سسٹم پابندیوں کی زد میں آیا، جس پر اسلام آباد کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور مذمتی بیانات بھی جاری کیے گئے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت میں بھی امریکہ کی پاکستان کے حوالے سے وہی پالیسی دیکھنے میں آئے گی، جو اس سے قبل جو بائیڈن کی انتظامیہ کی تھی۔

سابقہ پاکستانی سفارتکار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد واشنگٹن کی نگاہ میں پاکستان کی اہمیت کم ہوئی ہے اور گذشتہ چار برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر کوئی روابط نہیں رہے۔ملیحہ لودھی کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات محدود ہونے کا ایک سبب واشنگٹن اور انڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر سے منسلک ڈسٹنگوئشڈ فیلو رابرٹ میننگ کہتے ہیں کہ (چین سے) قریبی تعلقات اور پاکستان پر چین کے انحصار کے سبب نئی امریکی انتظامیہ میں قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور سیکریٹری خارجہ مارک روبیو جیسی چین مخالف شخصیات پاکستان کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھیں گی۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان مقابلے کی بنیاد پر نئی امریکی حکومت پاکستان کے حوالے سے سخت مؤقف اپنائے، کیونکہ یہ بات تو یقینی ہے کہ پاکستان امریکہ کے لیے کوئی ایسا اقدام تو نہیں اٹھائے گا، جس سے اس کے چین کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہو اور اس سب کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر فرق پڑے۔ سابق سفارتکار ملیحہ لودھی کے مطابق امریکہ کے لیے اسٹریٹجک ترجیح چین پر قابو پانا ہے، پاکستان چونکہ کسی بھی چین مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتا، اسی سبب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں امریکی دخل اندازی کے بہت سے شواہد موجود ہیں، اس کی تازہ ترین مثال عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے لیے امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر کا سائفر ہے۔ آج پی ٹی آئی کو یہ توقع ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی اقدام کریں گے۔

اگرچہ یہ اقدام سائفر کے حکم کے برعکس ایک اقدام ہوگا، تاہم مبصرین کے مطابق یہ ایسے کسی اقدام کی توقع رکھنا ایک گمان ہے۔ سابق سفیر حسین حقانی کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے وقت امریکہ اس عمل کی مخالفت کرنے والے ممالک میں تھا، تاہم جنرل ضیاء الحق کے فیصلے میں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس کے بعد نواز شریف جب قید تھے تو اس موقع پر صدر بل کلنٹن نے جنرل مشرف کو نواز شریف کی رہائی کا کہا تو ان کو رہائی نہ ملی، البتہ سعودی عرب کی مداخلت اور یقین دہانی پر نواز شریف کو سعودی عرب بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ حسین حقانی کے مطابق زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ یہ کہیں کہ میں آئی ایم ایف میں امریکہ کا ووٹ پاکستان کے خلاف لاؤں گا، حالانکہ ایسا کبھی تاریخ میں ہوا نہیں، تاہم وہ چونکہ صدر ٹرمپ ہیں، ممکن ہے کہ وہ ایسی بات کر دیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا چاہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں، تاہم وہ ایسا اس لیے نہیں کریں گے کہ عمران خان یا پاکستانی سیاست ٹرمپ کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔ ٹرمپ  کے پیش نظر خطے میں امریکی مفادات ہیں۔ وہ پاکستانی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے تو عمران کارڈ کا استعمال کرسکتے ہیں، تاہم بذات خود عمران خان کو چھڑوانے میں پاکستانی معاشرے میں امریکی نیک نامی کے علاوہ دوسرا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ پاک ایران روابط ہمیشہ سے امریکی دباؤ کے زیر اثر رہے ہیں۔ 2018ء میں طے پانے والا ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ تاحال التواء کا شکار ہے۔ ایران اور پاکستان کے مابین تجارت نسبتاً بہت کم ہے۔ اگر ٹرمپ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں اضافہ کرتے ہیں تو ایران پاکستان تجارت میں مزید کمی کے بھی امکانات ہیں۔

اگر ہمیں آئی ایم ایف کے قرضے، ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ، یو ایس ایڈ اور دیگر مالیاتی اداروں کی امداد کی بندش جیسے مسائل کا سامنا نہ ہوتا تو میں کہہ سکتا تھا کہ پاکستان کو اپنے ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی خارجہ بالخصوص خطے سے متعلق پالیسی کو ترتیب دینا چاہیئے، تاہم صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب امریکی اتحادی ہندوستان ہے تو دوسری جانب امریکی ساختہ داعش کے دہشتگر د۔ شمال میں چین سے امریکہ کی بنتی نہیں اور جنوب میں ایران کے خلاف امریکہ سخت فیصلے لینے کے لیے پر تول رہا ہے، ایسے میں پاکستان کے پاس کسی ایسے کا چھوٹا ہونے کا آپشن بچ جاتا ہے، جو امریکہ کے قریب ہو، تاکہ امریکی عتاب سے بچا جا سکے۔ خدا کرے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام یا ہماری افواج کی عسکری حیثیت امریکی ایجنڈے میں کہیں نہ ہو، کیونکہ ہمارے پاس یہی دو اثاثے باقی رہ گئے ہیں، جو ہمیں پورے عالم اسلام سے ممتاز کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1185772
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش