تحریر: ڈاکٹر محمد حسن زورق
ڈیڑھ سال پہلے اسرائیلی سفارت کار کچھ خلیجی عرب ریاستوں میں اپنے عرب اتحادیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیے رقص اور ناچ کرتے دکھائی دیتے تھے اور ایکدوسرے کی سلامتی کے لیے شراب پیتے نظر آتے تھے، وہ ناچتے، پیتے اور ابراہیم معاہدے کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ان کا رویہ کچھ یوں تھا گویا عرب دنیا میں مسئلہ فلسطین نامی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ اہل غزہ عرب حکمرانوں کی طرف سے یوں فراموشی کا شکار ہو چکے تھے گویا ان کا اس دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں مظلوم فلسطینیوں کا اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان اور انصاراللہ یمن کے علاوہ کوئی حامی و مددگار نہیں تھا۔ ایک طرف عرب حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے ٹاور آسمان کو چھو رہے تھے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں خواتین، بچے اور جوان شدید ترین مظالم اور حق تلفی کا شکار تھے۔
ان حالات میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے ایک حیرت انگیز اور شاندار فوجی آپریشن انجام دیا جس میں بڑی تعداد میں صیہونی فوجیوں اور آبادکاروں کو یرغمال بھی بنا لیا۔ یہ طوفان الاقصی آپریشن تھا۔ حماس کے مجاہدین نے فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارنے والے ان یرغمالیوں کو غزہ میں اپنے زیر زمین مراکز اور اڈوں میں منتقل کر دیا۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے طیش میں آ کر انتقامی کاروائی شروع کی اور ایسے اقدامات انجام دیا جنہیں عالمی ضمیر ہر گز قبول نہیں کر سکتا۔ صیہونی حکمرانوں نے غزہ کو مسمار کر کے ویران کر دینے کا فیصلہ کیا اور بہت حد تک اس غیر انسانی مقصد میں کامیاب بھی رہا۔ صیہونی رژیم نے اپنے فوجیوں کو وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔
صیہونی حکمرانوں نے اپنے فوجی جرنیلوں کو کہا کہ جہاں تک ممکن ہے خون کی ندیاں بہا دیں اور اس کام میں ذرہ برابر خوف نہ کریں اور نہ ہچکچائیں۔ صیہونی فوج نے اس قدر بربریت کا ثبوت دیا کہ خود ہزاروں صیہونی فوجی شدید قسم کی نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے اور کم از کم چار صیہونی پائلٹس نے مزید قتل و غارت سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی۔ اسی طرح ایک امریکی پائلٹ جو غزہ پر وحشیانہ بمباری کرتا رہا تھا، اپنے ضمیر کی سرزنش برداشت نہ کر پایا اور خود کو امریکہ میں اسرائیلی قونصلیٹ کی عمارت کے سامنے آگ لگا لی اور جان دے دی۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس حد تک مجرمانہ اقدامات پر اکتفا نہیں کیا اور فلسطینیوں کے اس حق سے انکار کر دیا کہ وہ اپنا دفاع کا حق رکھتے ہیں۔
نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل، حماس کو مکمل طور پر نابود کر دینے اور غزہ کو اپنے ساتھ ملحق کر دینے کا عزم راسخ کر چکا ہے۔ اس نے 15 ماہ تک اپنی اس پالیسی پر اصرار کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے مغربی اور عرب اتحادیوں کے لیے اس انسان مخالف پالیسی کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ صحیح ہے کہ نیتن یاہو نے امریکی حکام کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا ہے کہ اسرائیل نے اہل غزہ کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے تم لوگوں نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے عوام سے کیا تھا۔ یوں نیتن یاہو نے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ جس طرح جنگ کے بعد امریکی حکمرانوں نے اپنے دشمنوں کو جنگ طلب اور خود کو امن پسند ظاہر کیا اسی طرح ہم بھی تاریخ کو یہی تاثر دیں گے کہ ہم امن پسند اور اہل غزہ جنگ طلب ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں مغربی طاقتیں فتح یاب ہوئی تھیں لہذا وہ تاریخ میں اپنی مرضی کا تاثر شامل کرنے میں کامیاب رہیں لیکن غزہ جنگ میں تو اسرائیل کو واضح طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آئیے ایک نظر غزہ جنگ کے فریقین کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ڈالتے ہیں: اسرائیل کی اتحادی عرب حکومتیں اپنی قوموں کی رائے عامہ میں مشروعیت اور جواز کے بحران کا شکار ہو چکی ہیں۔ خود نیتن یاہو بھی اپنی پارٹی، اپنی کابینہ اور اپنے ملک میں قانونی جواز کے بحران کا شکار ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مغربی طاقتیں اپنی حیثیت بچانے کے لیے اسے قربانی کا بکرا بنائیں گی۔ صیہونی فوج شدید نفسیاتی بحران کا شکار ہے۔ اسرائیل میں مقیم یہودی مہاجرین میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور ان کی اکثریت وہاں سے نکل جانے کا سوچ رہی ہے۔
دوسری طرف عالمی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی سچائی سب پر اور خاص طور پر عرب شہریوں پر ثابت ہو چکی ہے۔ حماس، حزب اللہ لبنان، انصاراللہ یمن اور حشد الشعبی عراق کی فوجی صلاحیتیں نمایاں ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اسلامی مزاحمت نے سید حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ جیسے عظیم رہنما کھو دیے ہیں لیکن عرب دنیا سید عبدالملک الحوثی کی قیادت پر فخر محسوس کر رہی ہے۔ اگرچہ قاسم سلیمانی، عماد مغنیہ اور یحیی السنوار جیسے عظیم فوجی کمانڈرز شہید ہو گئے ہیں لیکن ایران میں قدس فورس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں انصاراللہ، عراق میں حشد الشعبی اور فلسطین میں حماس اور اسلامک جہاد ایسے دسیوں نئے سپوت امت مسلمہ کو عطا کر سکتے ہیں۔ پس خطے میں طاقت کا توازن اسلامی مزاحمت کے حق مین تبدیل ہو چکا ہے اور دنیا نئے حالات کی جانب گامزن ہے کیونکہ ایسی جنگ جاری ہے جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔