تحریر: سید رضا عمادی
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کو صرف تین دن ہوئے ہیں، لیکن اس کے بعد سے ان کی خارجہ پالیسی میں دو متضاد فیصلے کیے گئے ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدہ صدارت کو سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی کیوبا کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کرنے کے سابق صدر جو بائیڈن کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے گذشتہ ہفتے جاتے جاتے کیوبا کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ دریں اثنا، صدر ٹرمپ کی صدارت کے تیسرے روز بدھ کے روز وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ وہ حوثیوں کے نام سے جانے جانے والے انصاراللہ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے لیے ایک عمل شروع کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حوثیوں نے سنہ 2023ء کے بعد سے امریکی بحری جہازوں پر متعدد حملے کیے ہیں اور اس سے ہماری فوج کے مرد و خواتین کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہے۔
یہ کیوں اہم ہے؟
ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی جانب سے کیوبا اور انصاراللہ کے خلاف کیے جانے والے عداوت انگیز فیصلے کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ ان فیصلوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت (2020-2016ء) اور موجودہ دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔آزاد اور خود مختار ممالک کے بارے میں ان کے رویہ اور نقطہ نظر میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ سابق امریکی صدور کی طرح ٹرمپ بھی دہشت گردوں کی فہرست اور پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ البتہ ٹرمپ کے یہ دونوں اقدامات صیہونی حکومت کی حمایت میں کیے گئے ہیں، کیونکہ کیوبا ان ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں صیہونی حکومت کے نسل کشی کے مقدمے کی سماعت کی حمایت کی ہے اور یمن کے انصاراللہ نے غزہ کے خلاف 15 ماہ سے جاری نسل کشی میں غزہ کے عوام کی حمایت میں اس حکومت کے خلاف بار بار حملے کیے ہیں۔
وہ کیا کہتے ہیں؟
ٹرمپ کے دو متنازع فیصلوں پر ردعمل
کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینل نے اس اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے کیوبا کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ملک میں شامل کرکے دھوکہ دہی سے کام لیا ہے اور حقائق کی بے حرمتی کی ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ٹرمپ کا مقصد اقتدار کے حصول کے لیے کیوبا کے خلاف ظالمانہ معاشی جنگ کو جاری رکھنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بھی امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست میں کیوبا کے نام کے دوبارہ شامل ہونے کے ردعمل میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے اس طرح کے بے بنیاد الزامات اور خود مختار اور آزاد ممالک کو بدنام کرنے والی فہرستوں میں شامل کرنا قابل مذمت ہے اور اس حوالے سے امریکہ ایک طویل تاریخ کا حامل ہے۔
اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور توازن کے خلاف ہیں اور آزاد قوموں کے خلاف یکطرفہ اور ظالمانہ پابندیوں کے نفاذ کے بہانے ہیں۔ اس سے نہ صرف کیوبا کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہونگے، بلکہ اس طرح کے فیصلے بین الاقوامی سطح پر قانون کی حکمرانی کو مزید کمزور کرنے اور قانون کی خلاف ورزی کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ یمن میں انصاراللہ تحریک کے ڈپٹی انفارمیشن آفس کے نائب نصرالدین عامر نے بھی اس تحریک کے خلاف امریکی دشمنی کے معاندانہ اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا ہمیں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرنا ہمارے لئے اس سے زیادہ خطرناک اور اشتعال انگیز ہے کہ وہ ہمارے نام کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرے۔ امریکہ نے اس اقدام کے ذریعے یمن کے لوگوں کو غزہ کی حمایت کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا ہے اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے اور ان کی جدوجہد کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
یمن میں انصاراللہ تحریک کی امریکہ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے، نہ ہی اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی کمپنی ہے اور نہ ہی اس کے اراکین امریکہ کا سفر کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی صیہونی حکومت کے قبضے اور نسل کشی کے خلاف یمنی عوام کی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے یمن کے عوام کے خلاف بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے یکطرفہ اور بے بنیاد اقدامات بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں قانون کی حکمرانی کو مزید کمزور کریں گے اور علاقائی امن اور استحکام کو خطرہ میں ڈال دیں گے۔
گہری نظر:
نئی امریکی حکومت کی طرف سے کیوبا اور یمن کے انصاراللہ کے خلاف کیے جانے والے جارحانہ اقدامات کو اس نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان اقدامات کے ذریعے خود مختار ممالک اور آزاد منش تحریکوں پر اقتصادی دباؤ ڈال کر ان کی مالی وسائل تک رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان فیصلوں سے امریکی پالیسیوں کی سامراجی نوعیت کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی طرف سے انصاراللہ کے خلاف کارروائی مغربی ایشیاء میں مزاحمت پر مبنی امریکی جارحانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہے۔ مزاحمت کے بلاک کا مقابلہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات دراصل صیہونی حکومت کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہیں اور مغربی ایشیاء کے علاقائی نظم و نسق کو اسرائیل کے مفاد میں کرنا ہے۔