0
Monday 27 Jan 2025 09:08

علاقائی امن میں معاہدہ کوہاٹ کی اہمیت اور اسکی تعمیل کی ضروررت

علاقائی امن میں معاہدہ کوہاٹ کی اہمیت اور اسکی تعمیل کی ضروررت
تحریر: شبیر حسین ساجدی

معاہدہ کوہاٹ دراصل ضلع کرم کے پائیدار امن کے لئے نہایت اہمیت کا حامل معاہدہ ہے۔ ریاستی اداروں نے اگر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا تو کرم امن و سکون، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا بے نظیر خطہ بن جائے گا۔ مگر ریاستی اداروں کے ذمہ دار افسران جو یہاں پر اپنا تبادلہ کروانے پر کروڑوں روپے دیتے ہیں۔ ان سے یہاں کی بھلائی خصوصاً امن کی امید رکھنا ہی عبث ہے۔ جو عوام کا خون چوس کر ان کے بچوں کو مروا کر یہاں سے اپنی تجوریاں بھرنے کی امید رکھتے ہیں۔ من گھڑت اور جھوٹی کہانیاں گھڑ کر عالمی استکبار کو شیشے میں اتار کر اربوں ڈالرز ہتھیانے کیلئے ہمارے خون پر فلمائی گئی کہانیاں سچی ثابت کرواتے ہیں، تاکہ وطن عزیز سے باہر اپنی جائیدادیں بنوائیں، ان سے ایسی امید کس طرح رکھی جاسکتی ہے۔
 
کوہاٹ امن معاہدہ اگرچہ سرکار کا دیا ہوا سکرپٹ ہے۔ جس میں معمولی تبدیلیوں کے  بعد دستخط کروائے گئے۔ اس معاہدہ کو بڑی مہارت کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے، ان کا شاید یہ بھی خیال تھا کہ ضلع کرم کے فریقین اس پر راضی ہونے کیلئے کافی وقت لیں گے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ فریقین میں اکثریت جان چکی ہیں کہ ہم لڑ نہیں رہے ہیں بلکہ لڑوایا جا رہا ہے۔ انتہائی مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار سنجیدہ مشران خلاف توقع جلد راضی ہوگئے۔ بے بس اور بے اختیار ادارے واقعاً دیرپا امن کے خواہاں ہیں، تاہم ایسی طاقتیں جن کو بدامنی میں فائدہ ہی فائدہ ہے، کسی صورت میں معاہدے کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ سکتیں۔

انہی طاقتوں نے سول و عسکری بیوروکریسی اور صوبائی و مرکزی حکومتوں کو گمراہ کرکے یرغمال بنا رکھا ہے۔ گذشتہ ایک نشست میں بیرسٹر سیف کو جب میں نے کھری کھری سنا دیں، تو وہ خود گویا ہوئے کہ ہم مجبور ہیں۔ ہمیں احساس ہے کہ بہت برا ہوا رہا ہے، ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن جو آپ بول سکتے ہیں، وہ ہم نہیں بول سکتے۔ ہم نے حکومت بھی کرنی ہے۔ اس طرح اپنی مجبوری اور دوہرے معیار کا اعتراف کیا۔ جس کا اندازہ (آج) کوہاٹ میں منعقد جرگے سے ہوا، جس کا اہل تشیع نے بائیکاٹ کرکے اپنے موقف کا اظہار کیا کہ معاہدے کو 25 دن ہوگئے ہیں، ٹل پاراچنار روڈ کا تحفظ، جو اولین شق ہے، محفوظ بنا کر نہیں کھولا گیا۔

جرگہ میں بگن واقعہ کی مذمت کی گئی، مگر بگن میں نہتے مظلوم مرد و زن مسافروں کو گولیوں سے بھون کر اور سر تن سے جدا کرنے والے تکفیری دہشت گرد، جن پر ایف آئی آر درج ہیں، وہ جرگے میں نمایاں مقام پر تشریف فرما تھے۔ کمشنر ہاؤس میں موجود ریاستی اداروں کے نمائندوں کو وہ قاتلین نظر نہیں آئے، بلکہ ان کی خوشنودی کیلئے بگن کو کئی گنا زیادہ معاوضہ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ دوسری طرف چار مہینوں سے بھوک و افلاس سے دوچار چار لاکھ آبادی کیلئے آواز اٹھانے والے عوامی نمائندے تحصیل چیئرمین آغا مزمل حسین کو دہشتگردوں کی طرح گرفتار کرکے 30 گھنٹے چھپائے رکھنے کے بعد ڈی آئی خان جیل پہنچا دیا گیا۔ مزمل حسین ایک باوقار سماجی، مذہبی اور سیاسی رہنماء ہیں۔ جنہوں نے پاراچنار کی سیاست میں لوگوں کو امید دلائی ہے۔ جو لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ پہلے ہی دن سے ان کے آنکھوں کا کانٹا ہے۔

کرم کے طول و عرض میں ہر چھوٹا بڑا جانتا ہے کہ موصوف اتحاد بین المسلمین کے داعی اور علمبردار ہیں۔ پھر بھی ان کی گرفتاری کا کیا جواز بنتا ہے، مگر ان طاقتوں کی بھی یہ مجبوری ہے کہ پرامن رہنا یا امن کیلئے آواز اٹھانا اس ملک میں جرم بنا دیا گیا ہے۔ بعرض معذرت، تکفیری دہشتگردوں کے علاؤہ یہاں کچھ میر صادق اور میر جعفر بھی بدامنی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ لوگ عوام کی اکثریت کی نااہلی اور مفادات کی وجہ سے ہمارے سروں پر بیٹھے ہیں۔ جن کیلئے کورٹ کچہری میں کام کروانے کے لالچ نے ہم پر مسلط کر دیئے ہیں۔ جن کی قرآن اور احادیث میں بھی مذمت موجود ہے۔ انہوں نے حالات میں ابتری پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان مخبروں اور کارندوں کی حوصلہ شکنی اور سماجی لاتعلقی بھی انتہائی ضروری امر ہے۔

اگر ریاستی اداروں کے مفادات کی خاطر دوسرے معاہدوں کی طرح اس معاہدے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا اور نئی سازشوں کا آغاز ہوا تو عوام کی تکلیفوں میں مزید اضافہ ہوگا، بدامنی اور مایوسی ہوگی۔ ریاست کے پاس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر کرم میں امن لائے بغیر دوسرا راستہ نہیں اور ساتھ کرم کی عوام کو بھی معاہدے کو عملاً نافذ کروانے کیلئے آپس میں تعاون کرنا چاہیئے اور اس حوالے سے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1186626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش