جامعۃ الرضا اسلام آباد کے طلباء کا دی ایمز سکول اینڈ کالج کا مطالعاتی دورہ میرے لئے توقع سے زیادہ دلچسپ اور مفید رہا۔ ویسے تو مطالعاتی دورے کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اس سے طلباء کتابی دنیا سے نکل کر باہر کی دنیا سے اپنا رابطہ قائم کرتے ہیں۔ مطالعاتی دورے کا مقصد فقط گھومنا پھرنا اور وقت گزارنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے طلباء کو نئے تجربات، مختلف شعبوں کی حقیقتوں اور علمی دنیا کے حقیقی حالات کا براہ راست سامنا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ 25 جنوری 2025ء کو ہم جامعۃ الرضا بارہ کہو اسلام آباد سے دی ایمز کالج انیڈ اسکول کی طرف دن ساڑھے دس بجے بذریعہ بس روانہ ہوئے۔ بس میں مدیرِ مدرسہ حجۃ الاسلام سید حسنین عباس گردیزی صاحب کی موجودگی سے لمحہ بہ لمحہ ایک روحانی اور معنوی احساس ہمارے شاملِ حال تھا۔
ہم لوگ جیسے ہی ایمز کالج کے نزدیک بس سے اترے تو کالج کی انتظامیہ نے انتہائی نظم و ضبط اور محبت بھرے انداز میں ہمارا استقبال کیا۔ کالج میں صفائی ستھرائی، علمی ماحول، دیواروں پر موجود تصاویر، کمپیوٹر لیب، لائبریری، کیمسٹری، فزکس، بیالوجی، میڈیا۔۔۔ وغیرہ کی لیبز۔۔۔ یوں لگا جیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ میں ہر قدم پر یہی سوچ رہا تھا کہ ہم پاکستانی اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ہم نے مختلف کلاسز کا وزٹ بھی کیا۔ اساتذہ کے تدریسی طریقہ کار، کلاس رومز کا ماحول اور طلباء کا پڑھنے کا انداز یہ بتا رہا تھا کہ وطنِ عزیز اور انسانیت کی خدمت کیلئے ہمارے تعلیمی اداروں کا کم از کم اتنا معیار تو ہونا چاہیئے۔ میں نے کئی مرتبہ یہ سوچا کہ اگر میں آج دی ایمز کالج اینڈ سکول کا وزٹ نہ کرتا تو یقیناً ایک بہت بڑے علمی تجربے سے محروم رہتا۔
ایسے مطالعاتی دورے طلباء میں نئی تعلیمی روشوں کو دیکھنے، تنقیدی سوچ کے ابھرنے، مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور سیکھنے کی مہارت میں اضافہ کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہ اضافہ ہی ان کی ذہنی و فکری وسعت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ خود اس طرح گروپ کی صورت میں وزٹ کرنے سے طلباء کی مدیریتی صلاحیتیں بھی نکھرتی ہیں اور باہمی روابط بھی مضبوط ہوتے ہیں، جو اُن کی تعلیمی اور ذاتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایسے دورے طلباء کو ٹیم ورک اور قیادت کی مہارتوں کو بہتر بنانے کا موقع دیتے ہیں، کیونکہ گروپ کی صورت میں وزٹ کرنا دراصل ایک دوسرے کے مزاج اور خیالات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے۔
دی ایمز کی طرف سے محترم یثرب صاحب ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں دی ایمز کی چھت سے وادی کے خوبصورت مناظر اور دی ایمز کے اسپورٹس گراونڈ کا بھی نظارہ کرایا۔ ان کے بعد ہم ایک کانفرنس ہال میں پہچے، جہاں ڈاکٹر ذوالفقار صاحب نے دی ایمز سکول اینڈ کالج کی انفرادیت، اس کے ویژن اور مشن پر گفتگو کی۔ یہیں پر دی ایمز کے پرنسپل محترم علی روزی صاحب سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ علی روزی صاحب نے مختصر وقت میں دی ایمز کی ایک اجمالی پکچر ہمارے سامنے رکھ دی۔
اُن کا ہر جملہ ہمارے لئے امید اور روشنی کی ایک کرن تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کو ماضی میں کن مشکلات کا سامنا رہا اور کیسے کیسے حالات سے گزرنے کے بعد دن رات کی محنت شاقہ سے یہ ادارہ موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری منزل نہیں بلکہ ہم نے ابھی بہت آگے جانا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے نورالھدیٰ ٹرسٹ کے اراکین اور خصوصی طور پر دی ایمز کے CEO پروفیسر سید امتیاز علی رضوی صاحب کے وژن، پالیسیز اور حکمت عملی پر بھی مختصر روشنی ڈالی۔
اس کے ساتھ ہی ہمیں ریفریشمنٹ کے لئے ایک ہال میں لے جایا گیا۔ وہاں چائے اور سموسوں کے ساتھ ہماری تواضع کی گئی۔ ہمارے لئے سب سے حیران کن ہر شعبے کا ڈسپلن تھا۔ دینی طلباء کے لیے مطالعاتی دورے کا مقصد فقط معلومات میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ علمی، روحانی اور اخلاقی ارتقاء بھی پیشِ نظر ہوتا ہے۔ ایسے دورے دینی طلباء کو معاشرتی تقاضوں اور مطلوبہ مہارتوں سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ ابھی ہم محوِ گفتگو ہی تھے کہ دی ایمز کے سی ای او سید امتیاز علی رضوی صاحب ہماری بزم میں تشریف لے آئے۔ اگرچہ وہ اچانک تشریف لائے، لیکن ہمیں یوں لگا کہ جیسے ہم سب انہی کے منتظر تھے۔
انہوں نے باتوں ہی باتوں میں کئی کتابوں کے مطالعے سے زیادہ اپنا عملی تجربہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ ان کی فکر آمیز گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ انسان کے پاس سب سے بڑی طاقت سوچنے کی ہے اور انسان جتنا اپنے دماغ کو استعمال کرتا ہے، اس کی سوچنے کی صلاحیت اتنی ہی ترقی کرتی ہے۔ تیز ترین دور میں کُند دماغ کے ساتھ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عقل کے ارتقا اور فروغ کیلئے دینی علوم بہترین وسیلہ ہیں۔ دینی طالب علم یہ جان لیں کہ محنت کے بغیر کچھ بھی نہیں ملتا۔ کچھ بھی بننے سے پہلے اچھا انسان بننے کی فکر کریں، اس کے لئے دماغ لڑائیں، آپ لوگ بہت کچھ کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اپنی فیلڈ میں دماغ لڑائیں اور محنت کریں۔