تحریر: حسنین اولکھ
مشرق وسطیٰ میں جاری ظلم و بربریت، انسانیت سوز کارروائیوں، عالمی قوتوں کے دوہرے معیار، مسلم ممالک کی بے حسی اور بے بسی کی تصویر جہاں باعث تشویش و الم ہے، وہیں حماس اور ناپاک وجود رکھنے والی صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کی خبر اور اتوار سے معاہدے پر عملدرآمد غزہ کے بے یار و مددگار مظلوم فلسطینیوں کیلئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی ہے۔ قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے دوحہ میں جنگ بندی اعلان اور ثالثی کردار سے کوئی بھی منحرف نہیں تو دوسری جانب واشنگٹن کی فیس سیونگ، بائیڈن کی رخصتی اور ٹرمپ کی آمد کے ثمرات جیسے تانے بانے جوڑنے اور امیج بلڈنگ پر کام کیا جا رہا ہے۔ معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات میں 6 سے 7 ہفتے کی فائربندی، 33 اسرائیلیوں کا 2 ہزار فلسطینیوں سے تبادلہ، مصر، غزہ سرحد فلاڈیلفیا اور نتساریم راہداریوں سے اسرائیلی فوج کے فوری مکمل انخلاء، روزانہ 6 سو امدادی ٹرکوں کا غزہ میں داخلہ شامل ہے، جبکہ جنگ بندی معاہدے کی نگرانی قطر، مصر اور امریکہ کریں گے۔
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، مصر، قطر، ایران اور پاکستان سمیت عالمی برادی کی جانب سے جنگ بندی معاہدے اور غزہ میں انسانی قتل عام کے جاری سلسلے کے رکنے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے، یہ سوال الگ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اور نیتن یاہو کس حد تک اس معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 15 ماہ سے زائد عرصے میں جنگ بندی کی قیمت کم و بیش 50 ہزار فلسطینی شہید، 1 لاکھ 10 ہزار زخمی، 1 لاکھ سے زائد فلسطینی لاپتہ، 17 لاکھ کے قریب بے سرو سامانی کے عالم میں دربدر، 70 فیصد غزہ ملبے کا ڈھیر، گھر و مکانات، عبادت گاہیں و ہسپتال، کاروباری و تجارتی مراکز، فلاحی تنظیموں و اقوام متحدہ کے دفاتر نشانہ بنائے گئے تو دوسری جانب مزاحمتی گروپوں کی کارروائیوں میں 405 صیہونی فوجی جبکہ 1200 سے زائد اسرائیلی شہری جہنم واصل ہوئے۔ اس تناظر میں اشیاء خوردونوش، ایندھن، بجلی، خوراک، طبی سامان، علاج معالجہ و ادویات جیسی بنیادی ضرورت عدم دستیاب ہیں تو دوسری جانب غزہ میں غربت، پسماندگی، کسمپرسی اور وباؤں نے گھر کرلیا ہے۔
اسرائیل نے جس سفاکیت اور بے رحمی سے مشرق وسطیٰ بالخصوص غزہ میں جو خون کی ہولی کھیلی ہے، اس نے فلسطینیوں کی نسلیں اجاڑ ڈالیں اور خطے کے امن کو تہس نہس کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی کارروائیوں سے جہاں معصوم شہری خالق حقیقی کو جا ملے، وہیں حماس اور حزب اللہ کو بھی شدید نقصان پہنچا جبکہ سید حسن نصراللہ، اسماعیل ہنیہ، قاسم سلیمانی، یحییٰ سنوار، صالح العاروری، مروان عیسیٰ، محمد دائف، ابراہیم رئیسی اور عباس نیلفروشن جیسے بہادر بھی اپنی سرزمین پر قربان ہوئے ہیں۔ حماس کے مرکزی رہنماء خلیل الحیا کے یہ الفاظ وزن رکھتے ہیں کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے، جبکہ یمنی حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سلیوٹ پیش کیا ہے، اس وقت فلسطینیوں سمیت عالم اسلام کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اس تناظر میں یہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ مسلم امہ او آئی سی کو زیادہ مؤثر بنائیں اور عالمی سفارتکاری کے ذریعے صیہونی سفاکیوں کا اعادہ روکنے کی تدابیر کی جائیں۔
غزہ کی حالیہ صورتحال یہ ہے کہ لوگ شدید سردی کے باوجود کھلے آسان تلے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جبکہ سخت سردی کے باعث بچے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ غزہ میں ہونیوالی تباہیوں کے بعد انفراسٹرکچر کی بحالی مکمل جنگ بندی کی صورت میں ہی ممکن ہے، جس کیلئے کئی عشرے درکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کو پروان چڑھانے کیلئے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری یقینی بنانا ہوگی، مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر عالمی قوتوں بالخصوص مسلم امہ کے شدید تحفظات ہیں۔ اگر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی جاری رہتی ہے تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا، غزہ جنگ کے تناظر میں لبنان، شام، یمن اور ایران براہِ راست متاثر ہوچکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ اگر مشرق وسطیٰ میں حالات مزید بگڑے تو اسلامی ممالک کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگ میں کودنا پڑے گا اور اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہ ہوگا، جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کیلئے امریکہ کی ذمہ داری اور بھی بڑھتی ہے، جس کے ہاتھ میں ناجائز بچے اسرائیل کی ڈور ہے اور جو ہمہ وقت اس کی پشت پناہی کیلئے تیار رہتا ہے اور یہی اس کے مفاد میں بھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں نیتن یاہو سرکار کی من مانیاں اور جنگ صرف شطرنج کی ایک بساط بچھائی گئی، جس پر مہرے آگے اور پیچھے ہٹائے گئے اور ہٹائے جاتے رہیں گے۔ جنگ بندی اس لئے بھی ضروری تھی کہ جس طرح صیہونی ریاست نے غزہ کو عملاً انسانی خون میں نہلایا کہ جہاں انسانیت اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی ہے اور جو اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں ننگ انسانیت وحشت و بربریت کے جو مناظر سامنے آئے، اس پر انسانیت نوحہ کناں ہے۔ عالمی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے ایک سوچ یہ بھی رکھتے ہیں کہ امریکہ بھلے سپر پاور ہے، لیکن اسرائیل امریکی حکمرانوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتا ہے۔
فلسطین ایک پیچیدہ مسئلہ ہونے کیساتھ مسلم امہ کیلئے اس لئے بھی مقدس ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس وجہ سے مسلمانوں کے دل فلسطینی بہن بھائیوں کیساتھ دھڑکتے ہیں۔ پچھلی ایک صدی سے فلسطینی عوام اپنی زمین اور حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل کی فوجی طاقت اور حاصل بین الاقوامی حمایت کی بدولت غزہ کو قبرستان میں تبدیل کرچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ نہتے فلسطینیوں کو کوئی سکون کا لمحہ تو میسر ہو اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ بھلے غزہ 70 فیصد تباہ، حماس اور حزب اللہ شدید زخمی ہیں، لیکن فلسطینی عوام نے مزاحمت نہیں چھوڑی۔ فلسطینیوں نے ظالم کے آگے سر نہیں جھکایا، انہوں نے لاشے اٹھائے اور شہادتیں دیں، لیکن اپنی خودداری اور آزادی کا سودا نہیں کیا، تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ ثابت قدم رہے، فتح ان کا مقدر بنی ہے، ان شاء اللہ ہم بیت المقدس اور پیغمبروں کی سرزمین کو ناپاک صیہونی ریاست کے تسلط سے جلد آزاد ہوتا دیکھیں گے۔