1
Tuesday 27 Aug 2024 21:26

عام آدمی۔۔۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

عام آدمی۔۔۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تحریر: نذر حافی

12 اگست 2024ء کو ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر بلوچ کو کھڈ کوچہ کے مقام پر مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد بھی کئی واقعات ہوئے، تاہم 23 اگست 2024ء کو ہونے والی واردات نے سارے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ واردات پنجاب کے سرحدی ضلع رحیم یار خان میں ہوئی۔ جہاں 131 ڈاکوؤں نے ماچھکہ کے مقام پر پولیس موبائلوں کا گھیراؤ کرکے ان پر گولیوں اور راکٹوں کی برسات کر دی۔ اس کے نتیجے میں پولیس کے بارہ جوان شہید ہوئے۔ دوسری طرف بلوچستان میں ایک ہی شب میں چار درجن افراد کو قتل کیا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق 25 اگست کی شب 38 افراد تہہ تیغ ہوئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان موسیٰ خیل میں ہوا۔ مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو قومی شاہراہ کی ناکہ بندی کرکے لوگوں کو اتار کر اُن کی شناخت کے بعد انہیں گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دس سے زائد بسیں، تقریباً آٹھ ٹرک اور کئی دوسری گاڑیاں بھی جلا ڈالیں۔ بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان ایک انتہائی اہم پل کو بھی دھماکے سے اڑایا، جس سے ریلوے ٹریفک معطل ہوگئی۔ کھڈ کوچہ کے مقام پر لیویز تھانے پر حملہ کرکے اس کا ریکارڈ اور املاک کو نذرِ آتش کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ قلات میں قبائلی شخصیات کے گھروں پر حملے ہوئے۔ 6 لاوارث اور ناقابلِ شناخت لاشیں بولان کے پہاڑ سے ملیں۔ کوئٹہ میں دھماکے کے باعث ہونے والا جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ 26 اگست کو چہلم امام حسینؑ کے جلوس میں شرکت کیلئے جانے والے عزاداروں پر ضلع میانوالی کے علاقے کالا باغ میں کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے مسلح دہشت گردوں نے متعدد حملے کئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق ان حملوں میں بارہ عزادار شہید جبکہ ایک سو کے قریب زخمی ہوئے۔

مذکورہ بالا صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ دہشت گردوں کو کسی ایک ہی مرکز سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ ان کے مقابلے کیلئے ساری قوم کو بھی ایک ہی دیوار کی مانند متحد ہونا پڑے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں بلوچستان میں ہونے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کی نوعیّت بلوچ علیحدگی پسندوں سے زیادہ سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی سے ملتی جلتی ہے۔ عرصہ دراز سے بلوچستان روٹ پر سفر کرنے والے مسافر ایسے انسان کُش خطرات کی پیشین گوئی کر رہے تھے۔ عینی شاہدین اور متاثرہ مسافروں کے مطابق تفتان بارڈر پر سکیورٹی عملے کا عوام کے ساتھ توہین آمیز رویّہ اور وہاں تعینات صوفی صاحب کا لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے کا انداز، نیز مسافروں سے خواہ مخواہ میں فارم پُر کرانے نیز معلومات اکٹھی کرنے کا طریقہ کار انتہائی مشکوک رہا ہے۔ کسی نے عوامی فیڈ بیک یا پبلک کی شکایات کا نوٹس نہیں لیا۔

دہشت گردی کے پے در پے ہونے والے واقعات اور قومی شاہراہ پر ناکہ لگا کر لوگوں کو قتل کرنا کسی طور بھی عام آدمی کیلئے قابلِ ہضم نہیں۔ عام آدمی کوئی عزادار ہو یا پولیس و فوج کا اہلکار، وہ مسافر ہو یا سرکاری ملازم، اُس کا خون خاک کا رزق بن جاتا ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو اُس کی چیخ و پکار پر توجہ نہیں دی جاتی اور قتل ہو جاتا ہے تو اس کیلئے مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ گزشتہ 77 سالوں میں ہم کچّے کے ڈاکووں سے بھی نہیں نمٹ سکے۔ پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے مطابق یہ سب سکیورٹی اداروں کی ناکامی نہیں۔ جب اتنی بڑی شخصیات یہ کہہ رہی ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہونگی۔  بلوچستان کی سڑکوں پر اسمگلنگ کے ایرانی تیل سے بھرے ہوئے ٹرک بھی اگر رواں دواں ہیں تو اسے بھی سکیورٹی الرٹ نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسے ملکی معیشت کی ایک مضبوط کڑی قرار دیا جانا چاہیئے۔

عام آدمی کیا جانے کہ ملک کیا ہوتا ہے؟ سکیورٹی کیا ہوتی ہے؟ ملکی سلامتی کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ اُسے مسلح جتھوں اور لشکروں کے بننے کے فلسفے کی کیا خبر؟ عام آدمی کے دُکھ سمجھنے ہوں تو صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں لیاقت پور کے پولیس کانسٹیبل احمد نواز کی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ویڈیو کو ضرور دیکھئے۔ ماچھکہ میں پولیس پر ہونے والے حملے میں جب بارہ پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تو ڈاکو حضرات، احمد نواز کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ زنجیروں میں جکڑا ہوا  "احمد نواز" ہاتھ جوڑ جوڑ کر منتیں کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ "اگر اِن (ڈاکوؤں) کے مطالبے پورے نہ کیے گئے تو یہ مجھے مار دیں گے۔۔۔ اللہ کا واسطہ ہے! یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھر آتی ہے کہ "باقی شہید ہوگئے ہیں، مجھے بچا لیں۔" احمد نواز کے علاوہ بھی بے شمار مغوی روتے اور منتیں کرتے لوگوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ یہ گزشتہ 77 سالوں کا ہمارا سکیورٹی کارنامہ ہے۔

احمد نواز اور اس جیسے کئی لوگوں کے بندھے ہوئے ہاتھ دراصل ہر عام آدمی کے ہاتھ ہیں۔۔۔ جی ہاں یہاں ہر عام آدمی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ عام آدمی جسے اس ملک میں سانس لینے کیلئے صاف ہوا، پینے کیلئے صاف پانی اور سفر کرنے کیلئے محفوظ روڈ تک میسّر نہیں۔ وہ عام آدمی جو ہر وقت سپاہوں، لشکروں اور جتھوں کی زد میں ہے۔۔۔ یہاں وہ عام آدمی ہاتھ جوڑ کر منتیں کر رہا ہے کہ جسے کبھی عزادار ہونے کے جرم میں اور کبھی پنجابی، سندھی، بلوچ اور پٹھان ہونے کے گناہ میں مار دیا جاتا ہے۔۔۔ اس ملک میں عجب بے بسی ہے، اس عام آدمی کی۔۔۔ جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کس کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور جو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے۔
خبر کا کوڈ : 1156614
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش