1
0
Tuesday 27 Aug 2024 20:19

اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت (۱)

اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت (۱)
تحریر: سید اسد عباس

میرے ایک عزیز دوست جو آج کل یورپ میں مقیم ہیں نے مجھے بتایا کہ شاہ جی ہمیں مسئلہ فلسطین کو ایک مختلف زاویہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ مختلف زاویہ کیا ہوسکتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہم یہی سمجھتے رہے کہ صہیونی ریاست کے پیچھے صہیونی لابی ہے جو کہ امریکہ اور یورپ کے بڑے ممالک میں انتہائی موثر ہے تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یقیناً یہودی لابی امریکہ میں سرگرم ہے، تاہم حقیقی مسئلہ یہودی صہیونیوں سے زیادہ صہیونی مسیحیوں کا ہے۔

اس عنوان سے حماس کے ایک رہنما کا بیان بھی دیکھا جو کہ رہے تھے کہ صہیونی مسیحیت، صہیونی یہودی سے بڑا خطرہ ہے۔ میرے دماغ میں فوری طور پر فری میسنری کا خیال آیا کہ فری میسنز دنیا کے ہر ملک میں کلبز بناتے ہیں اور ان کا ہدف ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو ہے۔ میرے یورپی دوست نے بتایا کہ میسنری تو عرصہ ہوا غیر فعال ہوچکی ہے، دراصل یہ صہیونی مسیحیت ہے جو اسرائیل کی پشت پناہ ہے۔ آپ کی طرح میرا سوال بھی یہی تھا کہ پھر صہیونی مسیحیت کیا ہے؟ جہاں میں نے اپنے دوست سے سوال کیا وہیں میں نے اس موضوع کو نیٹ پر سرچ کرنا بھی شروع کیا۔

مسیحیت، اسلام کی مانند متعدد مسالک اور کلامی گروہوں پر مشتمل ہے۔ ان کلامی مسالک میں سے تین اہم نام ہم اکثر و بیشتر سنتے بھی ہیں۔ آرتھوڈاکس، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ۔ ان تینوں شاخوں کے ذیل میں بھی کئی ایک کلامی شاخیں موجود ہیں۔ میرے یورپی دوست کے مطابق ایک ایک شہر میں کئی کئی چرچ موجود ہیں اب وہاں آذان تو ہوتی نہیں کہ سمجھ آئے کہ بریلوی عبادت خانہ ہے، دیوبندی مسجد ہے یا شیعہ امام بارگاہ۔ سبھی عمارتیں چرچ ہیں اور اب تو پرانے زمانے کے انداز سے چرچ بھی نہیں بنائے جاتے بلکہ عام عمارتیں چرچ کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسری چیز مذہبی مسیحیوں کی وضع قطع ہے ضروری نہیں کہ کٹر مذہبی مسیحی کا لباس عام گوروں سے مختلف ہو یا اس کی لمبی چوڑی داڑھی ہو یا خاتون نے سر پر اسکارف رکھا ہوا ہو۔

مغرب میں کٹر مذہبی مسیحی پینٹ کوٹ، کلین شیو، نیکر، ہالف سلیوز کے ساتھ ہو سکتا ہے وہ شراب بھی پئیے گا اور ہر وہ کام کرے گا جو مغربی معاشرے میں رائج ہیں تاہم عقیدتی طور پر وہ سخت مذہبی ہوگا۔ آپ کو اچانک سے علم ہوگا کہ یہ گورا جسے میں آزاد خیال اور کھلے ذہن کا سمجھ رہا تھا یہ تو پکا مسیحی ہے۔ مسیحیوں کے مابین چرچ کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے ایک عبادت کے لیے جمع ہونے والی عمارت اور دوسرا عیسائی کمیونٹی۔ یعنی ایک کمیونٹی جو مشترکہ عقائد کی حامل ہے اسے بھی چرچ کہا جاتا ہے۔ جس کو اردو زبان میں کلیسا اور کلیسیا سے جدا جدا کیا جاتا ہے۔

کلیسا عمارت کو کہتے ہیں اور کلیسیا کمیونٹی کو۔ مسیحی آرتھوڈاکس ہو، کیتھولک ہو یا پروٹسٹنٹ تقریبا سبھی چند مشترکہ عقائد رکھتے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننا، تثلیث یعنی خدا، روح القدس اور ابن آدم پر ایمان، بائیبل کو الہامی کتاب سمجھنا اور حضرت عیسی علیہ السلام کا دوبارہ جی اٹھنا اور عالم انسانیت کو نجات بخشنا۔ آرتھوڈاکس مسیحی زیادہ تر روس اور مشرق وسطی میں رہتے ہیں یہ پوپ کو نہیں مانتے بلکہ پادریوں کی ایک جماعت ان کے مذہبی فیصلے کرتی ہے۔ اسی طرح پادریوں کے متون کو بھی اس ملک میں اہمیت دی جاتی ہے۔

مسیحی محققین کے مطابق پہلا آرتھوڈاکس چرچ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے 33 ویں سال معرض وجود میں آگیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے 1054ویں سال یہ دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ مشرقی آرتھوڈاکس چرچ اور مغربی کیتھولک چرچ۔ کیتھولک چرچ بھی خود کو قدیم ہی مانتا ہے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے شاگرد پیٹر کو پہلے پوپ کا درجہ دیتا ہے۔ کیتھولک ایک لاطینی لفظ ہے جس کا مطلب عالمی ہے کیتھولک چرچ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے کام کرتا ہے تاہم یہ سب کام پوپ اور اس کے تحت اداروں کے ذریعے انجام پاتا ہے۔

رومن کیتھولک چرچ کی دنیا بھر میں ممبر شپ تقریبا ایک بلین ہے۔ اسی مسیحی شاخ کے تحت دنیا بھر میں بہت سے فلاحی اور تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔۔ ایسا نہیں کہ کیتھولک فقط فلاحی اور تعلیمی کام کرتے ہیں اسی چرچ کے زیر اہتمام مسیحیوں نے صلیبی جنگیں (1095-1291) لڑیں۔ ان جنگوں کا مقصد بھی یروشلم کو مسلمانوں سے واپس حاصل کرنا تھا۔ صلیبی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے بھی دشمن تھے اور جہاں یہودی آبادی دیکھتے اس پر حملہ آور ہو جاتے کیونکہ یہ یہودیوں کو حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی چڑھانے والا سمجھتے تھے۔

سولہویں صدی عیسوی میں یورپ میں چرچ اور ریاست کو جدا کرنے کی تحریک کا آغاز ہوا، ساتھ ہی چرچ کے ممبران کی زندگیوں میں رسوخ کو بھی چیلنج کیا جانے لگا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں ہی ریفارمسٹ جن کو بعد میں پروٹیسٹنٹ ریفارمسٹ کہا گیا کا ظہور ہوا۔ اس گروہ کے سرکردہ افراد میں جرمن پادری مارٹن لوتھر (1546ء) اور فرانسیسی ماہر علم کلام کیلون (1564ء) کا نام  لیا جاسکتا ہے۔ مارٹن لوتھر کا کہنا تھا کہ نجات خدا کا تحفہ ہے اسے خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا۔ کیلون کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس نے ریفارمسٹ یا پروٹسٹنٹ عقائد کی بنیاد رکھی۔ برطانیہ کے بادشاہ ہینری ہشتم نے جب اپنی بیگم کو طلاق دینے کی خواہش کا اظہار کیا تو پوپ نے اس سے انکار کیا جس پر ہینری نے برطانیہ کے چرچ کو رومن چرچ سے جدا کر لیا اور چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی جس کا وہ خود سربراہ بن گیا۔

اسی طرح یورپ کے مختلف ممالک میں چرچ سے نالاں بادشاہوں نے اس نئی تحریک کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں یورپ میں سیکولرزم کی بھی بنیاد پڑی۔ سیکولرزم سے قطعا یہ مراد نہیں کہ معاشرہ مکمل طور پر مادر پدر آزاد ہوگیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ تھا کہ چرچ کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی حکومتی ادارے کسی شہری سے مذہبی بنیاد پر برتاؤ کریں گے۔ تاہم ایسا نہیں تھا کہ مذہب معاشرے سے معدوم ہوگیا۔ کیتھولک چرچ نے سیکولرزم کی کافی مخالفت کی تاہم آخر کار اسے ناکامی ہوئی اور مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد رومن کیتھولک چرچ سے الگ ہوگئی۔ انہی میں ریفارمسٹ یا اوینجیلیکز بھی شامل ہیں۔

اوینجیلیکل نظریات یورپ کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ نئی یورپی کالونی امریکا میں پھیلنے لگے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آرتھوڈاکس پوپ کی مرکزیت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ چند بشپس کی سرکردگی میں کام کرتے ہیں۔ کیتھولک پوپ کی نیابت کے قائل ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ پوپ کی حیثیت سے بات کر رہا ہو تو وہ غلطی نہیں کر سکتا ہے۔ پروٹیسٹنٹ، ریفارمسٹ یا اوینجیلیکلز پوپ کو نہیں بلکہ بائیبل کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ نجات کے حوالے سے بھی تینوں فرقوں کے نظریات میں فرق ہے۔ کیتھولک اس کو نیک کاموں سے جوڑتے ہیں۔ پروٹیسٹنٹ کا کہنا ہے حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان نجات کا ذریعہ ہے۔

اوینجیلیکل امریکا میں مسیحیوں کا اکثریتی فرقہ ہے، ان کو مسیحیوں میں سے روشن خیال لوگ سمجھا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو بھی پادری بنانے کے قائل ہیں، اس فرقہ کی مختلف شاخیں تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اوینجیلیکلز کی دنیا میں تعداد 619 ملین کے قریب ہے۔ اوینجیلک بنیادی طور لاطینی لفظ ہے جس سے مراد خوشخبری ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق فقط امریکا میں اوینجیلیکلز کی تعداد تقریبا 70 ملین تھی۔ ٹیکساس اس فرقے کا مرکز ہے۔ اوینجیلیکز بائیبل کی پیشنگوئیوں کے ذیل میں حضرت عیسی علیہ السلام یعنی مسیح موعود کے منتظر ہیں۔ ان کا یہی انتظار اور اس کے لیے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عسکری وسائل کی فراہمی یعنی راہ کو ہموار کرنا اوینجیلیکلز کو صہیونی مسیحی بناتا ہے۔

جاری ہے
خبر کا کوڈ : 1156494
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ اچھی ریسرچ ہے اور آپ کی تحریر پڑھ کر مزید علم میں اضافہ ہوا، جیتے رہو اللہ تعالیٰ آپ کے قلم علم میں وسعت اور بلندی عطا فرمائے، آمین
ہماری پیشکش