0
Monday 26 Aug 2024 22:47

راہِ کربلا میں مفتی عبدالباقی سے ملاقات

راہِ کربلا میں مفتی عبدالباقی سے ملاقات
تحریر: م ع شریفی

اربعین واک یا مشہور تعبیر مشی صرف انفرادی عبادت سے ہٹ کر اسے ایک عالمی سیاسی تحریک اور ظہور حجت حق کے لئے زمینہ سازی کی جانب قدم کے طور پر جانا جا رہا ہے۔ اس عظیم اجتماع میں خاکسار نے اچھائیوں اور خوبیوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ہاں اسے مزید جہت دینا اور بہتری لانا علماء حقہ اور دیندار طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس عظیم مشی کو زمانے کے حُسین (امام زمانہ عج) کے ساتھ عہد و پیمان قرار دیں۔ 61 ہجری کے مظلوم امام سے وفاداری، عقیدت اور ان کی تحریک کے اہداف کی پیروی کا عملی نمونہ تب پیش ہوگا، جب اس عظیم مشی اور عقیدت کو ان کے خون کے منتقم امامِ عصر (عج) کی عالمگیر تحریک کے لئے مقدمہ قرار دیں۔ عراقی مومنین کی ہر قسم کی خدمات و سہولیات کی فراہمی اور حکومتی سطح پر کئے گئے انتظامات پر لکھنے کے لئے کتابی شکل درکار ہے۔ فی الحال حسب وعدہ دیگر کچھ چیزوں کی طرف اشارہ کرنے جا رہا ہوں۔

نجف سے کربلا کے راستے میں مشی کے دوران بہت کچھ دیکھنے کو ملا۔ مرد و زن، کمسن بچوں سے لیکر عمر رسیدہ بزرگوں تک سب اس راہ میں محوِ خدمت دکھائی دیئے۔ کروڑوں لوگوں کی ضروریات سے کئی گنا زیادہ چیزیں مہیا تھیں، کسی کو کسی چیز کی شکایت نہیں تھی، کہیں پر بھی کوئی بدنظمی دیکھنے کو نہیں ملی، ہر شخص دوسرے کے حق کا خیال رکھتے ہوئے نظر آرہا تھا، ہر عورت مکمل شرعی پردے میں نظر آئی، ہر آنکھ میں حیاء اور جھکی دیکھی گئی، نہ کوئی لڑائی جھگڑا نہ کوئی خوف و ہراس اور امن و امان کی شکایت، سب کی منزل کربلا تھی۔ مختلف ادیان و مذاہب کے لوگوں کی شرکت کی اطلاع بھی ملتی رہی۔

راستے میں پاکستان سے آئی ہوئی کچھ اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں رہیں۔فلسطین فاؤنڈیشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم، معروف اینکرپرسن اویس ربانی، معروف نوجوان دیوبندی عالم دین مفتی عبدالباقی صاحب کے نام قابل ذکر ہیں۔فلسطین فاؤنڈیشن والوں نے شہداء کی یاد میں بہت خوبصورت کیمپ لگا رکھا تھا، جہاں مقاومتی تحریکوں کی نامور شخصیات اور شہداء کی تصاویر لگا رکھی تھیں۔ ایک اور جگہ معروف اینکرپرسن اویس ربانی سے ملاقات ہوئی۔ تعارف اور مختصر گفتگو کے بعد اویس بھائی نے کہا مفتی عبدالباقی صاحب بھی ہمارے ساتھ ہیں، ضرور ان سے ملنا، تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو جائے۔ مفتی صاحب کے بہت سے ٹاک شوز دیکھ اور سن چکا تھا۔

اگرچہ میرے ساتھ بچے بھی تھے، اتنی بڑی بھیڑ میں کسی سے آسانی سے ملنا اور وقت دینا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن وہ ہمارے مہمان تھے، اس لئے ضروری سمجھ کر مفتی صاحب سے ملنے ان کے ساتھ نزدیک میں پاکستانی موکب چلا گیا، وہاں مفتی صاحب سے تعارف ہوا۔ مفتی صاحب کو بہت خوش اخلاق، اتحادِ امت کے لئے سنجیدہ اور دردمند پایا۔ کچھ سال پہلے مفتی صاحب اسکردو بلتستان سے بھی ہوکر آئے تھے۔ المرکز اسلامی اسکردو میں تین ماہ رہ کر بھی آئے تھے اور ضلع گنگچھے بھی جاچکے  تھے۔ جب حقیر نے ان کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ عرض کی امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے اس طرح کے دورے ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب لانے کے لئے نہایت ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

راقم نے مزید کہا ہمارے ہاں اوپر کی سطح کے علماء ذمے دار افراد تو ایک اسٹیج پر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اس اتحاد کو عوامی سطح پر بھی لانے کی ضرورت ہے، آج اسلام دشمن قوتیں ہمارے اتنے سارے مشترکات کو پس پشت ڈال کر ہمارے مختصر اختلافی مسائل کا پرچار کرتی ہیں، جس پر مفتی صاحب نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا، جی بالکل وہ مشترکات جو 95% ہیں، ان کو ہمارے دشمن چھپاتے ہیں اور چند اختلافی باتوں کو سامنے لاکر آپس میں دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ حقیر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ایسے میں علماء اور اہل علم اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دشمنوں کی سازشوں سے مقابلہ کرنے کے لئے عوام کو حقائق بتائے جائیں، میری ان گزارشات کے ساتھ  مفتی صاحب نے مکمل اتفاق کیا۔ اس سفر میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد جوش کا یہ شعر یاد آیا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
خبر کا کوڈ : 1156335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش