تحریر: نذر حافی
انسان اور متن شناسی کی عمر ایک جتنی ہے، انسان جیسے جیسے متمدن ہوتا گیا ویسے ویسے متن شناسی کی اہمیت بڑھتی گئی۔ کیفیّت کے اعتبار سے متن مفید، تخصصی اور امدادی تین طرح کا ہوتا ہے جبکہ کمیّت کے لحاظ سے متن کی گونا گون انواع و اقسام ہیں۔ مفید متن آپ کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے لیکن یہ تربیّت نہیں کرتا جبکہ امدادی متن فقط کسی موضوع کی تکمیل کے کام آتا ہے۔ کمیّت کے لحاظ سے متن فقط تحریر تک محدود نہیں۔ گفتار و گفتگو، نقاشی و ہنر، مجسمہ سازی و علامات و نشانیاں یہ سب متن کی مختلف شکلیں ہیں حتی کہ بین السطور مطالب نیز اذہان و قلوب میں اٹھنے والا تخیّل بھی متن کے دائرے میں آتا ہے۔
کوئی بھی متن تفسیر سے بے نیاز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان، متن اور تفسیر یہ تینوں ہم عمر ہیں۔ مغرب نے متن کی تفسیر پر بطور علم تقریباً تین سو سال پہلے کام شروع کیا جبکہ یہی کام مسلمانوں کے درمیان چودہ سو سال پہلے شروع ہوا۔ متن کی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے دن سے ہی انسانی تاریخ کے جتنے بھی جھگڑے ہیں وہ متن کی تفسیر پر ہیں۔ اس تفسیری اختلاف نے انسانی تہذیب کو مختلف آرا و نظریات اور عقائد سے آشنا کیا۔ یہ اختلاف جتنا ضروری ہے اتنا ہی غیر معمولی بھی۔ چنانچہ یہ اختلاف سراسر انسانی خون اور قلم کی روشنائی سے عبارت ہے۔ کسی بھی متن کی تفسیر پر مفسّر کا ذاتی نظریہ، اس کا علم، اس کا ماحول، اس کا تعصب، یا اس کی جہالت ضرور اثر انداز ہوتی ہے۔
اگر مفسّر متن کے معنای مقصود یعنی تحریر، تقریر، تصویر یا تخیّل کے حقیقی معنی کی حفاظت نہ کرسکے تو وہ تفسیر بالرائے کی وادی میں جا نکلتا ہے۔ پس معاشرے میں خود متن کا مقدس اور محترم ہونا اتنا کارساز نہیں جتنا مفسّر کا غیر متعصب اور منصف مزاج ہونا ضروری ہے۔ اکثر غیر منصف مزاج مفسرین متن کا مرکزی خیال اور اصلی نظریہ نگل جاتے ہیں۔ اسی غیر منصفانہ تفسیر سے انحرافی افکار اور متعصب کلٹس CULTS جنم لیتے ہیں۔ اس کی واضح مثال مسلمانوں کے درمیان دینِ اسلام کے مشترکہ دین ہونے کے باوجود شدید نوعیّت کا تفسیری اختلاف یہ اختلاف انواع و اقسام کے دیگر اختلافات کو بھی جنم دیتا ہے۔قرآن مجید کی آیات ہوں یا ختم النبیین کی روایات ان کے حوالے سے بہت کم، متن کے مرکزی خیال، حقیقی نظریے اور مرادِ متکلم کی پاسبانی نظر آتی ہے۔
علم تفسیر کا مقصد تو فہمِ متن کو متاثر کئے بغیر متن کے معانی کو روشن کرنا ہے لیکن بعض حضرات فہم متن کی جگہ اپنی پسند و ناپسند کو بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دینِ اسلام کا سار مواد اور محتوی جو خواہ کتاب و سُنّت کی مکتوب شکل میں ہو یا عبادات و مجاہدات نیز قوانین شرعیہ کی صورت میں! اس سارے مواد کا عرق، نچوڑ اور خلاصہ یہ ہے کہ انسان نہ ظالم بنے اور نہ مظلوم، انسان ہر صورت میں ظلم کے خلاف برسرِپیکار رہے، وہ ظلم خواہ کفر و شرک کی صورت میں ہو یا فرعون و نمرود جیسے ظالم حکمرانوں کی صورت میں۔ فلسفہ دین، انسان کو ہر طرح کے ظالموں سے نجات دلا کر اسے صرف خدائے واحد کا عبد بنانا ہے۔
یہ کُل کے کُل دین کا مواد اور محتوی ہے۔ اس محتوی و مواد کی تفسیر اگر مفتی طارق مسعود صاحب اور ان کے ہم مشرب اکابرین سے لی جائے تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حکمران کے نیک اور اچھا ہونے کا کوئی حکم دین میں ہے ہی نہیں۔ حکمران کو اچھا بنا کر کیا کرنا ہے، حکمران تو صرف طاقتور ہونا چاہیئے تاکہ سب کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر جھکا سکے۔ اب مفتی صاحب کو ایک طرف رکھ دیجئے۔ ہمیں مفتی صاحب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم تو یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے دین کے منبر سے جو دین کی تفسیر کی ہے کیا یہ دین کے محتوی اور مواد کے مطابق ہے یا بالکل برعکس؟۔ دین طاقت کے زور پر لوگوں کو جھکانے کیلئے آیا تھا یا طاقتوروں کے جبر سے لوگوں کو نجات دلانے کیلئے؟۔
تاریخ دین اور قرآن و سنّت کے مطابق جتنے بھی انبیائے الہی آئے وہ سب کے سب کمزور اور مستضعف لوگوں میں آئے تاکہ کمزوروں کو طاقتوروں کے خلاف منظم کریں اور طاقتوروں سے کمزوروں کو نجات دلائیں۔ ایک برا اور ظالم شخص جب حکمرانی جیسے بلند منصب پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ بلندی سے نیچے کی طرف بہنے والے کسی گندے، غلیظ اور نجس نالے کی مانند ہوتا ہے۔ ایک ایسا گندا، غلیظ اور نجس نالہ جو جس طرف سے گزرتا ہے اس طرف کی ہر شے کو گندا، غلیظ اور نجس کر دیتا ہے۔
خاتم النبیینؐ نے دینِ اسلام کی صورت میں جو محتوی اور متن، دُنیا کے سامنے پیش کیا اُس کے مطابق اسلامی معاشرے میں عام افراد کی طرح حکمرانوں کی بھی ظاہری و باطنی پاکیزگی و طہارت ضروری ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں لہذا عقل و منطق کے اعتبار سے بھی اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کیلئے صفائے باطن اور طہارت ِعمل، شرطِ لازم ہے۔ اگر دینِ اسلام میں عام مسلمانوں کیلئے تو کوڑے، سزائیں، جرمانے، دُرّے، تازیانے، پھانسی اور سرقلم کرنے جیسی تعزیرات، حدود اور قوانین ہوں لیکن حکمرانوں کیلئے نیک و بد کی کوئی شرط اور عیش و نوش کی کوئی حد نہ ہو تو پھر یقیناً ایسا دین بادشاہوں، ظالموں اور جابروں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ بقولِ اقبال:
فتنہ ملت بيضا ہے امامت اس کي
جو مسلماں کو سلاطيں کا پرستار کرے
ایسا دین در حقیقت دینِ اسلام کے برعکس ہے چونکہ یہ تو بادشاہوں اور حکمرانوں کا مطیع و فرمانبردار ہے جبکہ عام عوام کی کھال کھینچتا ہے۔ اسلامی متون کی ایسی تفسیر فطرتِ سلیم اور عقل سالم سے مطابقت نہیں رکھتی۔ تفسیر کا مطلب تو روشن کرنا ہے۔ تاہم روشن کرنے میں اور آگ لگانے میں فرق ہے۔ ظالم بادشاہوں کی دین کے منبر سے لباسِ دین پہن کر حمایت اور تائید کرنا یہ دینی متون کی تبیین، روشن گری، تفہیم اور تفسیر نہیں بلکہ دینی متون کو نذرِآتش کرنا ہے۔ یہ مصطفوی نہیں بلکہ بولہبی ہے۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی