0
Sunday 25 Aug 2024 15:14

فتنہ قادیانت اور علامہ جواد نقوی

فتنہ قادیانت اور علامہ جواد نقوی
تحریر: تصور حسین شہزاد

سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران علامہ سید جواد نقوی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ قادیانیت کو ایک مذہب، نظریے یا اقلیت کے بجائے ایک فتنے کے طور پر سمجھا جانا چاہیئے، قادیانیت کو مذہب یا فرقے کے طور پر تسلیم کرنے سے عدالت اور ریاست کی سوچ میں ایک بنیادی غلطی پیدا ہوتی ہے، جو اس فتنے کی اصل نوعیت کو سمجھنے میں رکاوٹ بنتی ہے، فتنہ ایک ایسا عنصر ہوتا ہے جو معاشرتی، مذہبی، اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرتا ہے، اس لئے قادیانیت کو اقلیت اور غیر مسلم قرار دینا ایک ناقص قدم تھا، جس سے فتنے کو عالمی سطح پر حمایت ملی، دنیا بھر کے ممالک اور ادارے مسلم دشمنی میں اس فتنے کو تحفظ فراہم کرنے لگے، چنانچہ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور اس فتنے نے عالمی سطح پر ایک اہمیت حاصل کرلی۔ قادیانیت کے مسئلے کو آئینی سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح ریاست نے مذہبی دہشت گردی کو "فتنہ خوارج" کے طور پر تسلیم کیا ہے، اسی طرح قادیانیت کو بھی ایک فتنہ قرار دینا چاہیے اور آئین میں اس کی تصحیح کرنی چاہیئے۔

عدالت نے قادیانیت کو مذہبی حقوق اور آزادیوں کیساتھ جوڑ کر ایک بڑی غلطی کی ہے، جس سے نہ صرف عدالتی نظام بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے میں انتشار پیدا ہوا ہے۔ پاکستان میں موجود دیگر سیاسی اور مذہبی فتنوں کیخلاف مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔ سیاسی بحران، فرقہ واریت اور دیگر داخلی مسائل بھی فتنوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ان کا تدارک انتہائی ضروری ہے۔ امام علیؑ کی تعلیمات میں فتنوں کے خاتمے کا بہترین نمونہ موجود ہے۔ امام علیؑ نے ہمیشہ فتنوں کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کیا تاکہ وہ پھیل نہ سکیں اور معاشرتی امن و استحکام برقرار رہے۔ امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں فرمایا کہ "فتنوں کو دودھ مت پلاؤ اور ان کو سواری مت دو،" یعنی انہیں پنپنے کا موقع نہ دو۔ یہ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اسی حکمت عملی کو اپنائیں اور فتنوں کو ابتدائی مراحل میں ہی روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔ عدالت، حکومت، پارلیمان اور علماء کے درمیان تعاون سے بحران کا حل نکالا گیا ہے۔ چیف جسٹس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے علامہ جواد نقوی نے کہا کہ آپ نے علماء کیساتھ احترام سے بات کی اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا مظاہرہ کیا، جس سے ایک غیر معمولی مثال قائم ہوئی ہے۔

علامہ نقوی نے علماء کے کردار کو بھی سراہا، جنہوں نے اس معاملے میں عدالت اور حکومت کیساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست اور علماء متحد ہوکر فتنوں کیخلاف کام کریں، تو پاکستان کے اندرونی بحرانوں کو مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے علماء کو یہ نصیحت کی کہ وہ مذہبی اور سیاسی فتنوں کیخلاف بھی آواز بلند کریں اور ان کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ علامہ نقوی نے کہا کہ علماء کو چاہیئے کہ وہ ریاست کیساتھ مل کر فتنوں کیخلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ ملک کو انتشار اور تباہی سے بچایا جا سکے۔ قادیانیت کیخلاف جب سے پارلیمنٹ نے انہیں کافر قرار دیا ہے، تب سے مسلم اور قادیانیت کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے۔ قادیانیوں نے واقعی اسے بہترین انداز عالمی برادری کے سامنے پوٹریٹ کرکے انہیں شاندار انداز میں گمراہ کیا اور مفادات حاصل کئے۔ اسی بنیاد پر قادیانیوں کو دنیا بھر میں ہمدردیاں ملیں، سیاسی پناہ ملی، شہریت ملی، انہوں ںے وہاں اپنے کاروبار سیٹل کئے اور اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم بنایا، جس کے بعد قادیانیوں نے میڈیا میں لوگوں کو خریدا، ان کیساتھ تعلقات بنائے اور یوں پاکستان کے اندر بھی اپنے لئے ایک نرم گوشہ پیدا کر لی۔

یہ زمینی حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل قادیانیوں کو مظلوم سمجھتی ہے، ان کی حقیقت سے لاعلم نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کیساتھ ظلم ہوا، انہیں کیوں کافر قرار دیا گیا؟ جبکہ زمینی حقائق سے لاعلم ان نوجوانوں کو ’’ختم نبوت‘‘ عقیدے کے دفاع کیلئے کام کرنیوالوں کی جانب سے بھی تسلی بخش جوابات نہ مل سکے۔ جس کی وجہ سے قادیانی اپنے پروپیگنڈے میں کامیاب قرار پائے۔ سپریم کورٹ میں ملت تشیع کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ سید جواد نقوی نے شاندار انداز میں قادیانیت کیخلاف مقدمہ لڑا۔ ان کے مدلل بیان سے تمام مکاتب فکر کے علماء عش عش کر اُٹھے۔ یہ ہوا بھی پہلی بار ہے کہ کسی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو اتنے مدلل انداز میں قائل کیا کہ قادیانی مذہب یا فرقہ نہیں، فتنہ ہے۔ علامہ جواد نقوی سے اختلاف رکھنے والوں کا اپنا نظریہ ہوگا، راقم کو بھی ہو سکتا ہے بعض معاملات میں ان کیساتھ اختلاف ہو، مگر سپریم کورٹ میں انہوں نے ملت جعفریہ کے سلسلہ نسب کو ثابت کیا کہ ہم ہی باب العلمؑ کے ماننے والے اور حقیقی پیروکارانِ علیؑ ہیں۔ ابتدائے اسلام میں بھی جب نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اسلام پر سخت وقت آتا، تو تب بھی علیؑ کو ہی اسلام کی ’’حرمت‘‘ بچانے کیلئے بلایا جاتا یا ان سے رجوع کیا جاتا۔ آج 14 سو سال بعد بھی علیؑ کے ایک فرزند نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں کھڑے ہوکر اسلام کی حرمت کا دفاع کیا اور اسلام کو نقصان پہنچانے والے فتنے کو گردن سے دبوچ کر زمین پر مسل دیا۔

یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندر سر اٹھانے والے فتنوں کا مقابلہ کرے، ان فتنوں کا تدارک کیسے کرنا ہے، وہ بھی مولائے کائناتؑ نے نہج البلاغہ میں بتا دیا اور علامہ جواد نقوی نے دیگر مکاتب فکر کے علما سمیت چیف جسٹس کے سامنے بھی بیان کر دیا۔ یہ فتنے مختلف انداز اور اشکال میں وارد ہوتے رہتے ہیں، جس  نے بروقت ان فتنوں کا ادراک کیا، اس نے دین کی خدمت کی، اور جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا، اپنا بھی اور دین کا بھی نقصان کیا۔ آج کل تشیع پر بھی فتنوں کے وار جاری ہیں۔ ان کا تدارک کرنے کیلئے بھی علمائے تشیع کو میدان میں آنا ہوگا۔ باہمی اختلافات پس پست رکھ کر ان فتنوں کا تدارک کرنا ہوگا۔ تشیع کے عقائد پر حملے ہو رہے ہیں، مرجیعت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ولایت فقہیہ دشمن کا مرکزی ہدف ہے، جس کیلئے پیروانِ ولایت کو متحد ہونا ہوگا، مرجیعت اور ولایت کا دفاع ہی دفاع تشیع ہے۔
خبر کا کوڈ : 1156039
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش