خصوصی رپورٹ
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے تقرر میں سب سے بڑا کردار میاں نواز شریف کا تھا اور ان کے تقرر پر مارشل لاء لگانے کی دھمکی دی گئی تھی، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ہماری ٹیم کے معاشی ماہر کو بلا کر پوچھا تھا کہ اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام ان فوکس میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ آئے دن اڈیالہ جیل میں کسی نہ کسی کی عمران خان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور اس کے بعد پورا دن پریس کانفرنسوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، میرا بھی علیمہ خان کی طرح یہ سوال ہے کہ کیا صبح 7 بجے جیل کے اندر کوئی ملاقات ہو سکتی ہے اور اگر ہو سکتی ہے تو کیسے ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملاقات کے حوالے سے میرے علم میں کوئی بات نہیں اور حسب توفیق سب کو اندازے لگا لینے چاہئیں البتہ یہ معمول کی کارروائی ہرگز نہیں تھی۔ سابق آئی ایس آئی سربراہ کے کورٹ مارشل کے اوپن ٹرائل کے عمران خان کے مطالبے پر ان کا کہنا تھا کہ فوج میں کورٹ مارشل ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں اور آج تک کسی کا بھی اوپن ٹرائل نہیں ہوا، خان صاحب کے اپنے دور میں 25 آدمیوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلے جو وہ نہیں بتاتے، ان 25 میں سے تین کو موت کی سزائیں سنائی گئیں، کوئی اوپن کورٹ ٹرائل نہیں ہوا اور وہ اب بھی جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نے کہا کہ عمران خان کے دوہرے معیار ہیں، فیلڈ کورٹ مارشل کے اپنے تقاضے ہیں اور وہ ہوگا، خان صاحب ایک ایسے آدمی کی کیوں وکالت کر رہے ہیں جس کی وہ ذمے داری بھی نہیں لے رہے، ابھی فیض حمید خود بھی کچھ نہیں بولے لیکن خاص صاحب مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل اوپن کورٹ میں ہونا چاہیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں حال ہی میں فسادات ہوئے اور اسے ایک ماہ بھی نہیں گزرا لیکن سینکڑوں لوگوں کو جیل بھیجا جا چکا ہے لیکن ہمارے ملک میں ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہو سکی، جب عدلیہ اور انصاف کے ایوانوں سے سست روی کا عالم ہوگا اور اتنے بڑے سانحے کی حساسیت کا یہ عالم ہوگا تو آپ کہاں سے انصاف پائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ گرفت میں آئے ہیں، گو کہ بہت دیر سے آئے ہیں لیکن یہ بتائیں گے کہ ان کا 9 مئی سے کیا تعلق تھا یا 9 مئی کا اُن سے کیا تعلق تھا، جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کے لیے یہ دونوں ایک ہدف رکھتے تھے اور اسی لیے نومبر میں جب عاصم منیر کی تقرری ہونی تھی تو دو مارچ کئے گئے لیکن ان کی دال نہیں گلی۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ساری کہانیاں سامنے آئیں گی کہ وہ کون تھا جس نے نادرا سے ریکارڈ نکالا اور دوست ملک کو جاکر دیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عاصم منیر کا تقرر روکنے کے لیے عمران خان اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائرڈ فیض حمید یکجا تھے اور جب تقرر ہوگیا تو اس کو ختم کرنے کے لیے 9 مئی کا منصوبہ بنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کے تقرر میں سب سے بڑا کردار میاں نواز شریف کا تھا جبکہ میرے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ آصف زرداری اور شہباز شریف ان کا تقرر نہیں چاہتے تھے۔ عرفان صدیقی نے انکشاف کیا کہ خواجہ آصف درست کہتے ہیں کہ عاصم منیر کے تقرر پر مارشل لاء لگانے کی دھمکی دی گئی تھی اور ہماری ٹیم کے ایک صف اول کے اقتصادی ماہر کو باجوہ صاحب (سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ) نے بلایا اور کہا کہ اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، کیا معاشی پابندیاں لگیں گی اور اگر لگیں گی تو پاکستان کس حد تک برداشت کر سکے گا، اس حد تک گفتگو کی جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ بھی عاصم منیر کو آرمی چیف لگانا نہیں چاہتے تھے، وہ توسیع لینا چاہتے تھے یا نہیں اس پر سوالیہ نشان ہے لیکن اس پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ہے کہ وہ کہتے تھے کہ آرمی چیف کے عہدے کے لیے یہ پانچ لوگ ہیں، عاصم منیر کو چھوڑ کر ان چار میں سے کسی کو لگا لو لیکن اس کو نہ لگاؤ۔ ان کا کہنا تھا کہ عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنانے پر باجوہ صاحب اور فیض حمید کا اتفاق تھا لیکن نواز شریف نے کہا کہ مارشل لاء کی دھمکی ہو یا کچھ اور ہو، سینیارٹی لسٹ پر جو شخص بھی پہلے نمبر پر ہے اس کا تقرر ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ کہانی اتنی پھلا دی جائے کہ ہم کہیں کہ باجوہ کو بھی لے کر آؤ، ظہیر الاسلام کو بھی لے کر آؤ، عاصم باجوہ بھی کو بھی لاؤ، پاشا اور آصف غفور کو لاؤ، طاہر القادری کو لے کر آؤ، پھر یہ کہانی اتنی پھیل جائے گی کہ سمٹے گی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس موقع پر فیض حمید سے توجہ ہٹا کر محض اپنے ایجنڈے کے لیے اس کو سیاسی کھلیان میں بکھیر دیں اور اصل مدعہ پیچھے رہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ میرا کہنا ہے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں چار بغاوتوں سمیت 9 مئی سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہے، میرا ہدف عمران خان نہیں بلکہ 9 مئی کے مجرم ہیں، پھر چاہے وہ کوئی بھی ہے۔