تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
آگ برساتا سورج اور صحرا کی جلا دینے والی گرم ہواوں کے درمیان جب ہم جذابہ بارڈر سے عراق داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے صحرا کا بھولا بھٹکا مسافر گھر پہنچ گیا۔ اہل عراق کی سخاوت تو ویسے بھی ضرب المثل ہے۔ یہاں لفظوں میں نہیں واقعا آنکھیں منتظر اور دل بچھے ہوئے تھے۔ ہم وی آئی پی تھے اور ہمارے بچے وی وی آئی پی تھے۔ ریاست اتنے انتظامات کر ہی نہیں سکتی، سعودی عرب کی پوری ریاست حج انتظام کے لیے وقف ہو جاتی ہے مگر ہر سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ بڑی غلطیاں ہوتی ہیں اور بڑے بڑے سانحات ہو جاتے ہیں۔ اربوں ڈالر دنیا بھر کے حجاج سے وصول کیے جاتے ہیں، اس سب کے باوجود پیسوں پر بھی چیزیں پوری کرنا اور سہولیات پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابل اس صحرائی علاقے میں بسنے والے قبائل نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا ہے۔ یہ تہذیب پیار، محبت، بیداری، خدمت اور بس خدمت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ یہاں ساری شناختیں ختم ہو جاتی ہیں بس ایک شناخت رہ جاتی ہے، وہ شناخت آپ کا حسینیؑ ہونا ہے۔
مذہب بھی کہیں دور رہ جاتا۔ وہاں ہر طرف یہ نعرے زبانوں پر گونج رہے ہوتے ہیں "حب الحسینؑ یجمعنا" محبت حسینؑ ہمیں اکٹھا کرتی ہے۔ جب آپ کا محبوب حسینؑ ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ مسیحی، زرتشتی، ہندو، سکھ اور دنیا کے کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ جوق در جوق حسینؑ کی طرف بڑھے چلے جاتے ہیں۔ وہ شناخت نہیں چھپاتے بلکہ اپنی پوری شناخت کے ساتھ شریک سفر عشق ہوتے ہیں۔ لوگ بڑھ بڑھ کر امام حسینؑ کے ان مہمانوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں وہ امام حسینؑ کے مہمان ہیں اور جو امام حسینؑ کا مہمان ہے سب اس کے خادم ہوتے ہیں۔
بچوں کے بغیر کربلا کا تصور ہی نہیں ہے، یہاں سفر عشق میں ہر طرف بچے ہی بچے ہوتے ہیں۔ عربی میں بڑے دلکش نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ آپ کو زبان سمجھ میں نہیں آئے گی مگر آپ کو ان کے دل اور آنکھوں کی زبان سے مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔بارڈر سے لے کر نجف تک کوئی آٹھ دس گھنٹے کا راستہ ہوگا ہر جگہ یہ قبائل اور بچے آپ کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے آپ کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ایک انسان کتنا کھا سکتا ہے؟ کتنا پی سکتا ہے؟ اصل چیز ان کا عشق ہے جو انہیں مجبور کرتا ہے کہ یہ آپ کے پاوں دباتے ہیں، بیمار ہیں تو دوا حاضر ہے اور بچوں کے لیے دودھ حاضر ہے۔
ہم بغداد، سامرہ، کاظمین اور مسیب کی زیارات کرکے رات کے ایک بجے نجف اشرف داخل ہوئے۔ جس راستے پر اترے وہ بھی عام راستہ نہیں ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رات کے ایک بجے ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ سر پر تازہ بنے رولز کا تھال اٹھائے کھڑا ہے۔ بس سے اترتے زائرین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ میں سوچتا رہا ہے کہ یہ رات کے ایک بجے یہاں کیسے آیا؟ میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس بچے یا اس کی ماں نے سوچا ہوگا کہ جو زائرین دور مقامات کی زیارت پر گئے ہیں وہ رات بارہ بجے کے بعد ہی لوٹیں گے۔ اگر کھانا کھایا بھی ہوگا تو اس وقت تک کچھ نہ کچھ کھانے کی طلب پیدا ہوچکی ہوگی۔ اس لیے انہیں اس راستے پر بچے کو کھڑا کیا جہاں سے مسافر گزرتے ہیں۔ سبحان اللہ، یہ احساس انمول ہے اور دنیا میں اس کی کوئی قیمت نہیں۔
گرمی بہت زیادہ تھی اور ہمارے ساتھ چھوٹے بچے تھے اس لیے مشی کے دوران ہم صبح اور رات کو سفر اور دن کو آرام کرتے تھے۔ گرمی کو دیکھ کر میرا یہ خیال تھا کہ دن کے وقت مشی رک جاتی ہوگی اور لوگ جہاں ہیں وہیں آرام کرتے ہوں گے۔ ظہر کی نماز کے لیے وضو کرکے نکلا اور نظر مشی والے روڑ پر پڑی تو حیران رہ گیا۔ مشی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکتی۔ لوگ اس کڑاکے دار دھوپ میں بھی مسلسل چل رہے تھے، میں کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگ گیا۔ کیا چیز انہیں رکنے نہیں دیتی؟ وہ کون سا جذبہ ہے جو ماند نہیں پڑتا؟ یہ گرمی میں اے سی اور سردی میں ہیٹر پر بیٹھنے والی نسل اس آگ برساتے سورج میں زیر آسمان چل رہی ہے؟! اتنے میں جوانوں کا ایک گروہ میرے سامنے سے گزرنے لگا جنہوں نے یا لثارات الحسینؑ کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور وہ ننگے پاوں چل رہے تھے۔ ان کے چہروں کی سرخی اور ان کے لباس سے پتہ چل رہا تھا کسی ٹھنڈے علاقے اور متمول خاندان کے لوگ ہیں مگر یہاں سب کو بھلا کر عشق حسینؑ میں مجنون بن کر آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں۔
خدام حسینؑ آپ کو بور نہیں ہونے دیتے، یہ آپ سے باتیں کرتے ہیں، یہ آپ کے سفر کی صعوبتیں سن کر روتے ہیں، جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ کس قدر ذلت اور غیر انسانی سلوک کو برداشت کرتے ہوئے آپ یہاں پہنچے ہیں تو ان کے دل تڑپ جاتے ہیں، یہ بڑھ کر آپ کا ماتھا چومتے ہیں یہ آپ کے پاوں دبا کر آپ کے شریک سفر ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے بزرگوں کی زبان سے نکلنے والی دعائیں انسان کے لیے سرمایہ حیات بن جاتی ہیں۔ آج کون کس کے غم میں روتا ہے؟ کئی بزرگ اس لیے رو پڑے کہ کوئٹہ، تفتان اور کئی جگہوں پر پردہ دار بہنوں، بیٹیوں کے ساتھ زیر آسمان سونا پڑا۔ یوں لگتا ہے ہر طرف حسینؑ کی حکومت ہے، ہر طرف شہداء کی تصاویر ہیں اور ہر طرف لبیک یاحسینؑ کے نعرے ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ ہر سال زیارات پر جاتی ہیں، کئی لوگوں کی طرح میرا بھی یہ خیال تھا کہ وہ جب ایک بار جا چکی ہیں تو اب کسی اور کو اس سفر پر بھیج دیں یہ زیادہ بہتر ہے۔
وہ کہا کرتی ہیں کہ جس نے جام زیارت امام حسینؑ پی لیا ہے اس کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ آج ان کی بات حرف بحرف درست لگ رہی ہے، عشق حسینؑ کا دریا سینے میں موجزن پا رہا ہوں۔ یہ سفر عشق امام زمانہؑ کے ظہور کی تیاری کے لیے ایک تربیت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے اس سفر میں انسان سب کچھ بھول کر ولی خدا کی زیارت کو مقصد قرار دے دیتا ہے۔ اسی طرح یہ سفر ہمیں اس وقت کے ولی خدا کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں ہر صورت میں اس کے ظہور کی تیاری کرنی ہے۔ خود کو آمادہ کرنا ہے، ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جن کی وجہ سے ظہور امام ؑنہیں ہو رہا۔ یہ سب ارادہ خدا کا نفاذ اور وعدہ الہی کی تکمیل ہے۔ دل کر رہا ہے ابھی سے اڑ کر انہیں راستوں پر پیدل چلتے ہوئے عازم کربلا ہو جاوں اور بیس صفر کی شام کو وارد کربلا ہو جاوں۔